سینیٹر کامل علی آغا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے اجلاس کے دوران کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی سب سے بڑی غلطی تسلیم کرنا ہے کہ بینکوں نے اوور انوائسنگ کی، معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہونے کے بعد ضابطے کی کارروائی کی۔
کامل علی آغا نے کہا کہ جب تک کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اور سیکریٹری نہیں ہوں گے معاملہ حل نہیں ہو گا۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے اجلاس کے دوران اپنے مؤقف میں کہا کہ بینکوں کی آمدن پر ایف بی آر نے گزشتہ سال 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا تھا، تاہم بعد میں یہ معاملہ عدالت میں گیا اور اب وہاں زیرِ سماعت ہے۔
سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے حکام 65 ارب روپےنہیں مان رہے، وزیرِ خزانہ نے خود الزام لگایا تھا، اسٹیٹ بینک حکام تفصیلات فراہم کرنے کو تیار نہیں، اس معاملے پر تمام تفصیلات 3 دن میں فراہم کی جائیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کیا اسٹیٹ بینک نے تعین کیا کہ اس کی طرف کیا کمزوری اور افراد ملوث تھے۔
اسٹیٹ بینک کے حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال اٹھایا کہ یہ معاملہ کتنے عرصے چلا ؟
اسٹیٹ بینک کے حکام نے بتایا کہ یہ معاملہ دو سے تین ماہ چلا اور پھر اسٹیٹ بینک نے کارروائی کی۔
اس پر سینیٹر رانا محمود الحسن نے کہ کہا کہ اسٹیٹ بینک پانچ مہینے سویا رہا اور پھر کارروائی کی۔
سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ یہ پورے پاکستان کا ایشو تھا مگر اسٹیٹ بینک کو علم نہ تھا، یہ اسٹیٹ بینک کی کارکردگی ہے، آپ تمام تفصیلات تین دن میں فراہم کر دیں۔
اس پر اسٹیٹ بینک کے حکام نے کہا کہ تین دن کم ہیں اس کو بڑھا دیں۔
سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے کہا کہ یہ ڈیٹا تو موجود ہوگا اس کے لیے اتنے دن کافی ہیں، اس کو دو ہفتے کر دیتے ہیں تا کہ فیصلہ ہو سکے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ملک بھر میں اسلامی بینکاری کے نام پر عوام سے فراڈ کا انکشاف سامنے آیا تھا۔
چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا کا اس سے متعلق کہنا تھا کہ روایتی بینکوں سے قرض پر 20 فیصد شرحِ سود چارج کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی بینک قرض لینے پر 25 سے 30 فیصد کی شرح سے سود لیتے ہیں، عوام کے ساتھ اسلامی بینکاری کے نام پر فراڈ ہو رہا ہے۔
اس معاملے پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک سے اسلامی بینکاری پر بریفنگ طلب کی تھی۔