گزشتہ پچيس برسوں سے سفارتی تقریبات کا حصہ بنتا رہا ہوں مگر چینی سفارت خانے کی اپنے قومی دن کی تقریب میں پہلی بار دیکھا کہ صدر اور وزیر اعظم دونوں تقریب کی رونق بڑھارہے تھے۔ چینی سفیر جیانگ ژئی ڈونگ کو اسلام آباد تعینات ہوئے مختصر مدت ہی ہوئی ہے مگر انہوں نے اپنا حلقہ احباب بہت وسیع کر لیا ہے۔ اسی طرح لاہور میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب دونوں موجود تھے۔ چینی قونصل جنرل ژاؤ شیرین تو لاہور میں تعینات مختلف ممالک کے قونصل جنرل صاحبان میں سب سے پرانے ہیں اور یہاں وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں، ان کی نظر پاک چین تعلقات کی تمام جہات پر ہے مگر انہوں نے جس طرح مريم نواز حکومت کے اقدامات کا ذکر کیا اتنی گہرائی سے تو مسلم لیگ ن کی میڈیا ٹیم اور وزیر اعلیٰ کی سرکاری ٹیم بھی نہیں کر پاتی۔ پہلی تقریب میں ایک غیر ملکی سفارت کار سے ملاقات ہوئی جو اردو زبان سے آشنا ہے۔ ان کے ہاتھ میں الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ تھی۔ میری طرف کتاب کو بڑھاتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ اگر پاکستان کی آئینی تاریخ سے واقفيت رکھنی ہے تو اس کتاب کا مطالعہ ہر دانشور، پارلیمنٹیرین اور سرکاری افسر کو ضرور کرنا چاہئے میں بولا کہ بالکل درست اور میں تو اس کا مطالعہ ایک ہی نشست میں کر گیا تھا۔ الطاف حسن قریشی سے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے فرمائش نما ضد کی کہ آپ پاکستان کی آئینی تاریخ کو اپنے مشاہدات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قلم بند کریں۔ شریک مصنف کی ذمہ داری قریشی صاحب نے پروفیسر امان کے ہی ذمہ لگا دی۔ قلم فاؤنڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم نےکتاب کی اشاعت کا بیڑا انہوں نے اٹھا لیا۔ کتاب کیا ہے معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ خیری برادران نے انیس سو سترہ میں اسٹاک ہوم کے مقام پر سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے ایک مقالہ پیش کیا تھا۔ اس کے ساتھ مسلم جداگانہ وطن کا نقشہ بھی منسلک تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی ہند میں سیاسی کشمکش پر مسلمان زعما ایک عرصے سے ایک خاص نقطہ نظر کے تحت سوچنے کی جانب مائل ہونا شروع ہو چکے تھے۔ مگر اس سب کے باوجود کانگریس اکثریت کے زعم میں کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں دکھائی دیتی تھی۔ انیس سو چھتیس کے دوران کانگریس کی مرکزی کمیٹی کی ہیئت ترکیبی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وقت کانگریس کی مرکزی کمیٹی کے پورے برطانوی ہندوستان سے ایک سو چھتیس اراکین تھے اور ان ایک سو چھتیس اراکین میں سے صرف 6 مسلمان تھے جن میں سے تین کا تعلق صوبۂ سرحد، ایک یوپی، ایک بہار اور چھٹے مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ اسی طرح سے ہمارے یہاں کانگريس کے انیس سو سینتیس کے انتخابات جیتنےاور سات صوبوں میں حکومت سازی سے ایسا تاثر قائم کیا جاتا ہےکہ جیسے تمام مسلم ووٹر بھی کانگریس کے ساتھ تھے۔ حالانکہ اس وقت صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی کل چار سو بیاسی نشستیں تھیں۔ ان نشستوں میں سے صرف اٹھاون پر کانگریس نے امید وار کھڑے کئےاور ان میں سے بھی صرف چار امید وار کامیاب ہوئے تھے۔ اس طرح سے صوبائی اسمبلیوں میں کانگریس صرف پانچ فیصد مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھی مگر اپنی اس گری ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کی بجائے جب کانگریس صوبائی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی تو انہوں نے مسلم شناخت کو مسخ کرنے کی غرض سے تعلیمی پالیسی بنائی اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے اس کا نصاب ڈاکٹر ذاکر حسین سے تیار کروایا۔ یہ تعلیمی پالیسی واردھا اسکیم اور ایودھیا مندر اسکیم کہلائی۔ آنکھوں میں دھول جھونکنا اس لئے کہ ایودھیا مندر اسکیم میں تجویز کیا گیا تھاکہ مدرسے کا نام مندر ہونا چاہئے اور دیگر کچھ معاملات کا تو کالم میں ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس پر آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس نےنواب کمال یار جنگ کی سربراہی میں1938 میں کمیٹی تشکیل دی اور اس سب کا پوسٹ مارٹم کیا۔ مسلمان علیحدہ سیاسی بندوبست کا سوچنے پر مجبور اس غرض سے ہوئے کہ كکانگریس متحدہ قومیت کی آڑ میں اکثریت کی آمریت قائم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھی۔ قائد اعظم نےمارچ 1940 کی لاہور میں تقریر میں کہا کہ گاندھی کہتا ہے کہ ایک وقت تھا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جسے مجھ پر بھروسہ نہ ہو ، تو آج بد قسمتی سے حالت بدلی ہوئی ہے۔ پھر قائد اعظم نے سوال کیا کہ حضرات کیا میں گاندھی سے یہ دریافت کر سکتا ہوں کہ وہ اسباب کیا ہیں جن کے باعث مسلمانوں کو اس پر بھروسہ نہیں رہا؟ ایک فقرے میں قائد اعظم نے کانگریس کی ساری تاریخ سمو کر رکھ دی ۔
الطاف حسن قریشی کی یادداشت میں قیام پاکستان کے بعد کا ایک منظر اور ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا ہال تھا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی ، صدر عوامی لیگ جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے تقریر میں کہہ رہے تھے کہ1956کے دستور میں ہماری صوبائی خود مختاری کے 98 فیصد مطالبات منظور کر لئے گئے ہیں مگر پھر اس دستور کو تہس نہس کردیا گیا اور جو معاملات طے ہو گئے تھے ان کو ہی متنازع بنا کر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی۔