شوق کا تو پوچھئے ہی نہ، سب کے من کے اندر آتش فشانیاں ہوا کرتی تھیں کہ موقعیت (اسٹیٹس کو) کا قلع قمع ہو ، افسر شاہی صراطِ مستقیم پر دیکھیں، تھانے، کچہری، اور عدالتوں کے ماتھے پر اصلاحات کا نور ہو ۔ اَسی کی دہائی تک کالج اور یونیورسٹی کا ہر چوتھا طالب علم تبدیلی کا خواہاں تھا، اور اس تبدیلی کی خاطر اس نے اپنا ایک خاص پلیٹ فارم بھی چُن رکھا ہوتا۔ کسی کی مورچہ بندی اسلامی جمعیت طلبہ اور کسی کی جمعیت طلبہ اسلام کے نام سے تھی، پھر انجمن طلبہ اسلام اور امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنم بھی ہوئے۔ پی ایس ایف اور ایم ایس ایف کے دما دم مست قلندر الگ تھے۔ مقامی نوعیت کے اتحاد اپنی جگہ تھے تاہم ہر کوئی تبدیلی کیلئے کوشاں تھا ہر کوئی نہیں کچھ جذباتی عناصر انقلاب کی باتیں بھی کرتے۔ اُس وقت لوگ ہم عصر مطالعاتی ذوق اور سوسائٹی کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے کے متمنی تھے مقتدرہ پسند، سٹیٹس کو پسند کرتے مگر حقیقی لیڈر شپ اسٹیٹس کو ہمیشہ سےچیلنج کرتی دکھائی دی۔ لیکن آج کا طالب علم اپنا پلیٹ فارم ہی نہیں رکھتا۔ طلبہ سیاست دم توڑ چکی ہے اور تعلیمی کوچہ و بازار میں پروفیسر سیاست کا راج ہے، اور یہ اساتذہ سیاست بھی محض اپنی پروموشن، خود کو کمیٹیوں اور اپنے بچوں کو نوکریاں دلوانے کیلئے ہے، کسی تربیت سازی اور ریاستی بناؤ کیلئے ہر گز نہیں! تاریخ سے ناآشنا سمجھتا ہے کہ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ پہلی دفعہ آیا ہے، جو لوگ تاریخ اور سیاست کو قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہٹلر اور مسولینی کو سیاست سے ایک قدم آگے بڑھ کر چاہا گیا کچھ نے تو پوجا شروع کردی۔ وہ لوگ سوئے بھی ہوتے تو چاہنے والے کہتے بہتری کے انقلاب کو تقویت پہنچانے کیلئے خواب دیکھ رہے ہیں گویا شاہ سے زیادہ شاہ کو چاہا جائے تو وہ نرگسیت کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے، یہ ان لیڈران کے ساتھ ہوتا ہے جن کے اندر نرگسیت کی آنچ پہلے ہی ہوتی ہے لیکن امید میں اندھا دھند جذبات کے حامل کسی نہ کسی ہٹلر اور مسولینی کی نرگسیت کی آبیاری ہر دور میں اور ہر کہیں کرتے رہے ہیں۔ سیاست سے زیادہ معاشرہ پیچیدہ ہوتا ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں لیڈرشپ عوام سے کہیں زیادہ زیرک ہوتی ہے سو انقلاب تو درکنار محض اصلاحات کے رستے رکے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہٹلر اور مسولینی سی قیادت کی کبھی کسی نے شیلف لائف دیکھی ہے؟ عموماً کتنی پائی گئی؟ اگر عام اور خاص اس سوال کا جواب دیکھ لیں تو عصرِ حاضر کی پیچیدگیوں کی آرام سے سمجھ آ جائے گی۔ آسٹرین سائیکو اینالسٹ (نفسیاتی ماہر) اور پروفیسر کرن برگ نے اپنی ایک تحقیق کے تناظر میں 2004 میں کہا تھا کہ نرگسیت کی بیماری کو سادہ ہر گز نہیں لینا چاہئے تاہم یہ عمومی تاثر ہے کہ نرگسیت کی حامل لیڈرشپ کی شیلف لائف کم و بیش 15 برس ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ اس کے ایسی لیڈرشپ کو لوگ رفتہ رفتہ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں ، یہ الگ بات ہے وہ اپنی چاہت کی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے کہ اس میں شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے۔ بہرحال میں مائیکل میکوبی سے متفق ہوں انہوں نے 2004 میں ہارورڈ بزنس ریویو میں لکھا تھا کہ نرگسیت میں مبتلا لوگ کسی کی سننے پر کم توجہ دیتے اور سمجھنے پر اس سے بھی کم تاہم اس منفی معاملہ کے باوجود ضروری نہیں وہ اچھے لیڈر نہ ہوں ، چانس ہے جو ہو بھی سکتا ہے۔ نرگسیت سے زیادہ ہوس پرست اور جنونی ہونا خطرناک ہے۔ نرگسیت تبدیلی کو جنم دے بھی سکتی جیسے ملٹری بالادستیوں یا جنگی ماحول میں نرگسیت والوں نے مثبت معاشرتی تبدیلیوں کو جنم بھی دیا جس میں ماہرین فرینکلن روزویلٹ کا نام بھی لیتے ہیں۔ بہرحال نرگسیت میں ہوس پرستی اور جنونیت کا شامل ہو جانا خطروں کے دریچے کھولتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں دیکھ لیں جہاں کبھی نرگسیت نے ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہاؤس ، یا پھر سپہ سالاری اور عادل حیثیت پائی تو اس کے دعوے مضبوط رہے مگر نتائج کمزور۔ یہ چار پوزیشنیں استقلال، مکالمہ اور خارجی و داخلی چیلنجز سے آشنا ہوں تو پاکستان جیسا ملک بھی ترقی یافتہ بن سکتا ہے اگر ہم جوہری توانائی ہو سکتے ہیں تو معاشی توانائی کیوں نہیں؟ لیکن جو لوگ آج اس سے انکاری ہیں کہ عدالتی اصلاحات نہیں ہونی چاہئیں، یاد تو ہوگا کہ سپریم کورٹ نے بار ہا پارلیمنٹ کو روندابھی ہے، اور اعتزاز احسن جیسے اکابر کہتے پھر رہے ہیں کہ آئینی عدالت سے سپریم کورٹ کو خطرہ ہے یا کچھ لوگ آئینی دستاویز کو زندہ دستاویز نہیں سمجھتے اس کے سر پر نرگسیت کے سائے ہوں گے یا پھر نرگسیت میں مبتلا کسی لیڈر کی پرچھائیاں جو صبح کچھ کہتا اور شام کو کچھ، کہہ کر مکر جانے کو سیاسی حربہ یا یو ٹرن کے بجائے کچھ اور بھی کہا جاتا ہے جو میں سپردِ قلم نہیں کروں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اصلاحات اور آئین سازی کے جو ہر دکھا کر اللہ کو بھی پیارے ہوگئے ، اور آج کے جید سب سیاستدان بھٹو سے تقریباً بیس سال بڑی عمر رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر پا رہے۔ تبدیلی کے حقیقی و غیر حقیقی خواہاں کبھی بیٹھ کر بھٹو کے تناظر میں بھی جائزہ لیں !آئینی ترامیم اور دیگر مختلف سطح کی اصلاحات بیدار مغز قیادت کا خاصا ہوتا ہے ورنہ کہیں پرویز مشرف اور کہیں نسیم حسن شاہ و ثاقب نثار یا بندیال بھی جنم لے لیتے ہیں اسی لئے عالمی سطح پر عدالتیں 140 ویں نمبر تک کا زوال پاتی ہیں۔ فی الوقت ہم آئیڈیل نہ بھی سمجھیں تو آصف علی زرداری ، میاں نواز شریف، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن بیدار مغز قیادت بہرحال ہیں۔ انہیں آئینی ترامیم میں ریاستی وقار کے بعد اصلاحاتی ایجنڈا ہر قیمت آگے بڑھانا چاہئے لیکن ایسے جیسے 18ویں ترمیم اور بلوچستان پیکیج کا ملک بھر کی قیادت کو اعتماد میں لے کر بڑھایا گیا۔ گھبرانا کیا، ہر بیماری کا علاج اور ہر مسئلے کا حل دریافت کرنا ضروری ہے!