• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو وطن عزیز میں چار سو جبر و استبداد کا ماحول ہے مگر خدائی فوجداروں کے ظلم سے خدا ہی بچائے۔ جب کبھی کسی شخص پر کوئی الزام لگتا ہے تو مقدمہ یعنی فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ درج ہوتی ہے۔متعلقہ حکام معاملے کی جانچ پڑتال کے بعد عدالت میں چالان پیش کرتے ہیں، گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، وکلا کے دلائل سننے اور دستیاب شواہد کا جائزہ لینے کے بعد جج صاحب فیصلہ سناتے ہیں۔ اس فیصلے کیخلاف اپیل کا حق ہوتا ہے لیکن اگر کسی بدقسمت شخص پر توہین مذہب کا الزام لگ جائے تو سچ اور جھوٹ کو الگ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی، معاملہ کچہری تک نہیں پہنچتا، مشتعل ہجوم عدالت لگاتا ہے اور ملزم کو دردناک موت کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ سوات میں ایک بے گناہ شخص کو زندہ جلا دیئے جانے کے بعد’’روزنامہ جنگ‘‘میں رفیق مانگٹ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اس طرح کے واقعات میں 103افراد ہجوم کے ہاتھوں قتل کئے جا چکے ہیں۔ قابل ذکر بات مگر یہ تھی کہ 1947ء سے 1991ء تک صرف تین افراد ہجوم کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے مگر 1992ء سے 2024ء تک 100افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کوئٹہ میں عبد العلی نامی ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی جسکے بعد تھانہ خروٹ آباد میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ملزم گرفتار ہوا مگر اہل ایمان نے دھاوا بول دیا ۔ان کا اصرار تھا کہ یہ مقدمہ ہجوم کی عدالت میں پیش کردیا جائے۔خدشات کے پیش نظر ملزم کو حفاظت کے پیش نظر کوئٹہ کینٹ پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا ۔وہاں ایک پولیس اہلکار نے حوالات میں ملزم کو قتل کردیا تو اسے ہیرو بنا دیا گیا ۔اسی طرح کا ایک واقعہ سندھ میں پیش آیا جہاں ڈاکٹر شاہ نواز کو پولیس نے نہایت بے دردی سے قتل کر دیا ۔اس کی لاش چھین کر جلا دی گئی۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس معاملے کا آغاز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کی گئی ایک پوسٹ سے شروع ہوا۔ڈاکٹر شاہ نواز نے وضاحتی ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اب وہ یہ اکائونٹ استعمال نہیں کرتے ان کا اس پوسٹ سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن اس ویڈیو کے ذریعے انہیں تلاش کرکے گرفتار کیا گیا اور پھر جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔یہاں بھی ستم بالائے ستم یہی ہوا کہ وہ پولیس اہلکار جن کا کام ملزم کی حفاظت کرنا اور اسے دفاع کا حق فراہم کرنا تھا انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کے بجائے قانون ہاتھ میں لیکر ڈاکٹر شاہ نواز کو قتل کردیا اور اس گھنائونے جرم کے ارتکاب پر انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے ۔ہیرو کی طرح پذیرائی دی گئی۔آپ کو جنید حفیظ یاد ہے ؟ راجن پور سے تعلق رکھنے والے جنید حفیظ نے پری میڈیکل میں ٹاپ کیا اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ لیکن ایم بی بی ایس کے پہلے ہی سال کے بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں کیونکہ ان کی طبیعت ادب کی طرف مائل ہے۔ چنانچہ میڈیکل کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس پرکشش مستقبل کو خدا حافظ کہہ دیا جس کا خواب ہر بچہ دیکھتا ہے۔جنید حفیظ نے بہائو الدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ادب میں داخلہ لے لیا اور پھر فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکہ کا رخ کرلیا ۔حصول علم کے بعد ملتان کی اسی مادر علمی میں بطور لیکچرر ملازمت اختیار کرلی۔2013میں جنید حفیظ پر توہین مذہب کا الزام لگا ۔الزام یہ تھا کہ جنید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک پیج بنایا جس پر’’ملا منافق‘‘نام کی آئی ڈی سے کوئی نازیبا کمنٹ کیا گیا۔الزام یہ نہیں تھا کہ توہین پر مبنی پوسٹ جنید حفیظ نے کی بلکہ خدائی فوجدار اس بات پر سیخ پا ہوگئے کہ جنید حفیظ نے اس کمنٹ کو ڈیلیٹ نہیں کیا بلکہ اسے لائیک کیا۔بہر حال پولیس ملزم کو بپھرے ہوئے منتشر ہجوم کے غیظ و غضب سے بچانے میں تو کامیاب رہی مگر ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اب اسے مجرم قرار دیکر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔پہلے تو بدقسمت ملزم کو کوئی وکیل میسر نہیں آرہا تھا کہ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا تھا۔آخر کار راشد رحمان ایڈووکیٹ نے یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی وکیل کو جج کی موجودگی میں دھمکی دی گئی کہ آپ اگلی سماعت کے موقع پر پیش نہیں ہو سکیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ایک ماہ بعد راشد رحمان کو قتل کردیا گیا۔جج صاحب بھی شدید دبائو کا شکار تھے ۔مقدمہ کی سماعت کے دوران چھ جج تبدیل ہوئے آخر کار 2019میں جنید حفیظ کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر ابھی تک یہ مقدمہ سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکا۔جنید حفیظ کے بوڑھے والد بیٹے سے ملاقات کیلئے جیل جاتے ہیں تو ملاقات نہیں ہوپاتی۔قید تنہائی کی اذیت جھیلتا ،ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتا جنید کسی کال کوٹھڑی میں سانس لے رہا ہے بس یہ اطلاع مل جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اپنے بیان کی وضاحت،اس سے رجوع کرنے یا معافی تلافی کا حق محض مفتیان کرام اور مشائخ عظام کو حاصل ہے؟ کیا کسی عام آدمی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا؟ کسی شخص کا جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ، اسے دفاع کا حق نہیں ملنا چاہئے ؟ مذہب کی کند چھری سے بے گناہ انسانوں کو قتل کیا جارہا ہےاور علمائے کرام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ کیا روز قیامت ان سے بازپرس نہیں ہوگی ؟زبانوں پہ آبلے کیوں پڑ گئے؟بولتے کیوں نہیں،یک زبان ہوکر برملا یہ کیوں نہیں کہتے کہ کسی ملزم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر قتل کردینے والے بدترین گستاخ ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟

تازہ ترین