• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی عدالتیں اُن دونوں طرح کے ممالک میں ہوسکتی ہیں جہاں کامن لا اور سول لا کا نظام ہو، لیکن انکی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ سول لا رکھنے والے ممالک میں وہ عام طور پر الگ، خصوصی عدالتیں ہوتی ہیں، جبکہ کامن لا رکھنے والے ممالک میں آئینی معاملات کو عام عدلیہ، خاص طور پر عدالتی نظرثانی کے وسیع اختیارات رکھنے والی سپریم کورٹ دیکھتی ہے۔ تاہم کچھ کامن لا رکھنے والے ممالک، جیسے کہ جنوبی افریقہ، نے ایک مخصوص آئینی عدالت قائم کی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے، آئینی اور قانونی تشریح سے متعلق معاملات، بنیادی حقوق کے نفاذ اور بین الحکومتی مسائل کو ایک چھتری کے نیچے نمٹانے کیلئے صوبائی دارالحکومتوں کی طرف سے کسی خصوصی عدالت کیلئے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، جسے آئینی عدالت کہا جاتا ہے ۔ آئینی عدالت کا قیام اختیارات کی علیحدگی اور عدلیہ کی آزادی کے تصور کیخلاف نہیں ۔پاکستان میں ایسی عدالت کے قیام سے شہریوں کو 1973ء کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے نفاذ پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ لیکن مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 184(3) اور 199کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کو نئی مجوزہ آئینی عدالت کو منتقل کیا جائیگا۔ نئی مجوزہ آئینی عدالت پاکستان جیسے وفاقی اکائیوں پر مشتمل ملک میں ایسے مسائل سے نمٹنے کیلئے یکسانیت اور دائرہ اختیار کی وضاحت کرئیگی اور انہیں یقینی بنائے گی۔ اس سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی توانائی، وقت اور وسائل عام شہریوں کے قانونی معاملات کو جلد نمٹانے پرصرف ہو سکیں گے اور زیر التوا مقدمات کابے پناہ حجم کم ہوسکے گا۔ پاکستان میں آئینی عدالت کے قیام کیلئے اسکے کامیاب نفاذ اور طویل مدتی اثر کو یقینی بنانے کیلئے ایک واضح اور تزویراتی روڈ میپ درکار ہے ۔ پاکستان کیلئے آئینی عدالت کی ضرورت بلاشبہ ملک کے قانونی، سیاسی اور تاریخی تناظر میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ پاکستان کی عدلیہ مضبوط ہے ۔ جس دوران سپریم کورٹ آئینی دائرہ اختیار رکھتی ہے، ایک مخصوص آئینی عدالت کے قیام کے کئی فائدے ہو سکتے ہیں۔ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے، حقوق کے تحفظ اور جمہوری طرز حکمرانی کو برقرار رکھنے کے خواہاں ممالک کیلئے اس کی بطور خاص ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک میں عدالتی نظام پر دیوانی، فوجداری اور انتظامی مقدمات کا بے پناہ بوجھ ہے۔ آئینی مقدمات کو عام عدلیہ میں شامل کرنے سے اہم آئینی معاملات کے حل کی رفتار سست ہو سکتی ہے چنانچہ آئینی نظرثانی اور آئینی اصولوں کے تحفظ کا تصور قانونی روایات کے مطابق ہے۔آئینی عدالتوں کا قیام بہت سے ممالک میں ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ اگرچہ ان عدالتوں کا ڈھانچہ اور دائرہ اختیار مختلف ہے، لیکن ان کی کامیابیاں پاکستان کیلئے قابل قدر سبق ہیں۔ جرمنی، جنوبی افریقہ اور اٹلی سمیت بہت سے ممالک نے آئینی عدالتوں کو مخصوص کرتے ہوئے آئینی معاملات پر خصوصی توجہ کو یقینی بنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی معاملات اور سرکاری اداروں کیخلاف دائر مقدمات میں اضافے سے ہماری سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس پر بڑھنے والے بوجھ نے انکی اپیل سننے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے ، جو انکا اصل کام ہے۔ پاکستانی نظام انصاف کے ہر مرحلے پر بے اندازہ مقدمات کئی دہائیوں سے زیر التوا ہیں۔چنانچہ پاکستانی نظام انصاف کمزور، اور جنوبی ایشیا میں سب سے کم درجے پر ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان آئینی اور عمومی دونوں طرح کے قانونی معاملات کو دیکھتی ہے۔ جسکے نتیجے میں انصاف کی فراہمی میں بہت زیادہ تاخیر ہوتی ہے۔ ایک نئی آئینی عدالت پیچیدہ آئینی مسائل کو نمٹانے کے ذریعے اس بوجھ کو کم کر سکتی ہے، جس سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو دیگر قسم کے مقدمات پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔اس سلسلے کا پہلا قدم آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت آئینی ترمیم کو منظور کرنا ہوگا جو آئینی عدالت کو تشکیل دیتی ہے۔ اس کیلئے پارلیمنٹ میں وسیع سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ آئین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ ضروری ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرزاستحکام اور انصاف کو فروغ دینے میں عدالت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسکی سیاسی مخالفت کوکم کریں۔ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو اکثر مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تناؤ کا سامنا رہتا ہے۔ آئینی عدالت اس طرح کے تنازعات کے وقت منصفانہ طور پر ثالثی کی پوزیشن میں ہوگی۔ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئین کے طے کردہ دائرہ اختیار کے اندر کام کریں۔ آئینی عدالت کو سیاسی تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ ایسے تنازعات کا شفاف قانونی حل پیش کرتے ہوئے آئینی عدالت سیاسی تعطل، عدم استحکام، یا حتیٰ کہ فوجی مداخلتوں کو روک سکتی ہے جن سے پاکستان کی سیاسی تاریخ داغدار ہے۔ آئینی عدالت انتظامی حد سے تجاوز کرنے یا قانون سازی کی مداخلت کے خلاف ایک چیک کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ آئینی عدالت کی کامیابی کیلئے ججوں کا محتاط انتخاب بہت ضروری ہے۔ ججوں کا انتخاب آئینی قانون میں مہارت اور ان کی غیر جانبداری کی بنیاد پر کیا جائے۔ انہیں آئینی قانون، تقابلی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون میں خصوصی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ کیس کی سماعت اور فیصلوں کیلئے سخت ٹائم لائنز متعارف کرانے سے آئینی معاملات کے فوری حل کو یقینی بنایا جائیگا اور عدالتوں میں التوا کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوگا۔

آئینی عدالت کی کامیابی بہترین نفاذ ، دائرہ اختیار کی وضاحت، آزادی، کارکردگی اور غیر جانبداری کو یقینی بنانے پر منحصر ہوگی۔ دنیا بھر کی آئینی عدالتوں کے تجربات سے اخذ کیا گیا یہ بہترین طرز عمل عدالت کو آئین کے تحفظ، حقوق کے تحفظ اور حکومت کی شاخوں کے درمیان تنازعات کی ثالثی میں مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مدد کریگا۔ متنوع قانونی نظاموں والے ممالک میں آئینی عدالتوں کی کامیابیوں سے سیکھ کر پاکستان ایک ایسی عدالت تیار کر سکتا ہے جو اس کی جمہوریت کو مضبوط کرے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے اور آئینی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ عدالت آئینی بحرانوں کو حل کرنے، بنیادی حقوق کے تحفظ اور آئین کی پاسداری کے کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

تازہ ترین