• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب حکومت بے خبر اراکین پارلیمنٹ کے ذریعے بے خبری میں آئینی ترمیم کرانے میں ناکام ہوگئی تو حکمران اتحاد میں شامل کچھ زعما نے جلدی سے خود کو اس سے الگ کرلیا ۔ انھوں نے اس عمل میں ایک غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرلیا کہ مجوزہ بل کی کچھ شقوں کی نوک پلک درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ شقیں عام شہریوں کا ملٹری ٹرائل کرنے، افسران کو عدالتی جانچ سے ماورا ’’قومی سلامتی کے قوانین‘‘ کے تابع کرنے،موجودہ سپریم کورٹ کی جگہ حکومت کی نامزد کردہ آئینی عدالت ، جس کی مدت زیادہ طویل ہو، قائم کرنے اور ہائی کورٹس کے ججوں کا اُنکی مرضی کے بغیر تبادلہ کرنے کی حمایت کرتی ہیں ۔ تاہم اس دوران اُنہوں نے (خاص طور پر فصاحت و بلاغت کے بے تاج بادشاہ، بلاول بھٹو زرداری) یہ وضاحت کرتے ہوئے ان کوششوں کو تیز تر کردیا کہ آخر ایک نئی آئینی عدالت کیوں ضروری ہے؟ کیا اس نئی آئینی عدالت کے بنیادی تصور کیساتھ کچھ غلطی ہے؟ یہ بہرحال میثاق جمہوریت کے مطالبات میں سے ایک تھا، جس کااس وقت بھی خیر مقدم کیا گیا اور آج بھی اسکا پاکستانی سیاست کی عمدہ ترین دستاویزات شمار ہوتا ہے۔ تو اگر اس میثاق کا ادھورا تقاضا پورا کیا جارہا ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟ میثاق کامسودہ تیار کرنیوالوں کا احترام ، لیکن یہ اُس وقت بھی خراب تصور تھا اور یہ آج بھی خراب تصور ہے ۔ سب سے پہلے مخصوص آئینی عدالتوں کے تصور کی ابتدا کا جائزہ لیتے ہیں ۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کامن لا جوڈیشل سسٹم رکھتے ہیں (جیسا کہ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا، پاکستان وغیرہ)، یا سول لا جوڈیشل سسٹم رکھتے ہیں (جیسے جرمنی، فرانس، آسٹریا، روس، جنوبی کوریا وغیرہ)۔ کامن لا رکھنے والے ممالک میں غیر منقسم عدالتی نظام ہوتا ہے (اگرچہ داخلی طور پر اس میں ذیلی تقسیم اور کچھ خصوصی ٹربیونل ہوتے ہیں)۔ کامن لا سسٹم میں ایک جج قانون کی تشریح کرتا ہے اور حکم لگاتا ہے۔ اُنکے فیصلے عدالتی نظیر قائم کرتے ہیں ، جو کہ قانون سازی کا ایک ذریعہ ہیں، اور دوسرے جج اُنھیں استعمال کرتے ہیں ۔ چونکہ ججوں نے قانون بیان کرنا ہوتا ہے، تووہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ کیا یہ قانون آئینی ہے یا نہیں ۔ اگرچہ یہ مسئلہ برطانیہ میں پیدا نہیں ہوتا (کیوں کہ وہاں تحریری دستور موجود نہیں ہے) لیکن کامن لا رکھنے والے دیگر تمام ممالک (جہاں تحریری دستور موجو دہے ) میں عام عدالتیں بھی آئینی فریضہ سرانجام دیتی ہیں ۔ امریکی سپریم کورٹ نے 1803میں ’’ماربری بنام مڈیسن‘‘ کیس میں کانگریس کے ایکٹ کو ساقط کردیا تھا،اور ایسا کرتے ہوئے وہ اولین آئینی عدالت بن گئی ۔ نئی آئینی عدالت کیلئے کیا جواز پیش کیے گئے ہیں؟ اول یہ کہ سپریم کورٹ سیاسی اور آئینی مقدمات پر بہت زیادہ وقت اور توجہ صرف کرتی ہے اور عام مقدمات کو نظر انداز کرتی ہے۔

ایک مخصوص آئینی عدالت سپریم کورٹ کو عام مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر توجہ مرکوز کرنے اور عدالتی تاخیر کو کم کرنے میں مدد دیگی۔ دوم، یہ کہ آئینی معاملات میں سپریم کورٹ کا ماضی کا ریکارڈ ناقص ، انتہائی سیاست زدہ اورذاتی ترجیحات کا غماض رہا ہے۔ ایک نئی عدالت ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوگی ۔ عدالتی تاخیر بلاشبہ سائلین کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں اٹھاون ہزار، ہائی کورٹس میں چار لاکھ اور ماتحت عدالتوں میں تقریباً اٹھارہ لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ اور کوئی بھی قانونی چارہ جوئی کرنیوالا آپ کو بتائیگا کہ سپریم کورٹ تک پہنچنے والے کیس پر صرف ہونیوالے وقت کا سپریم کورٹ میں دورانیہ مختصر ترین ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ عدالتی اصلاحات کا نقطہ آغاز وہ عدالتیں ہوں گی جہاں سب سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں اور جہاں سب سے زیادہ تاخیر ہوتی ہے۔ لیکن آپ غلطی پر ہونگے۔ یہ سپریم کورٹ ہے جسکی ہمارے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اصل فکر ہے ۔ دیگر عدالتوں اور عام سائلین کے مقدمات کے التوا سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔ اب سیاست دان آپ کو بتائیں گے کہ سپریم کورٹ ’’سیاسی مقدمات ‘‘ میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسکے پاس عام مقدمات کا فیصلہ کرنیکا وقت ہی نہیں ۔ اگر یہ بات درست ہو تو اسکا ایک آسان حل ہے۔ سیاستدان ایسے مقدمات دائر کرنا چھوڑ دیں۔ چنانچہ پیپلز پارٹی قاسم سوری کی عدم اعتماد کی رولنگ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے باز رہتی، اور پارلیمانی لڑائی پارلیمنٹ میں ہی لڑتی ، یا تحریک انصاف مخالفین کو عدالت سے نااہل قرار دلانے کی بجائے ان کا انتخابی میدان میں مقابلہ کر سکتی تھی۔ جب کوئی سیاسی رہنما ذاتی طور پر عدالت سے رجوع کرتا ہے تو یہ آئینی حقوق کا سوال ہے، لیکن جب اس کا مخالف ایسا کرتا ہے تو یہ ایک سیاسی معاملہ قرار پاتا ہے۔ اب آئینی مقدمات کیلئے ایک مخصوص عدالت کے قیام کی بتائی گئی عملی ضرورت پر غور کرنے سے پہلے وضاحت درکار ہوگی کہ دراصل آئینی مقدمہ کسے قرار دیا جائے ۔ ایک تعریف کے مطابق (کچھ سول لا سسٹم کے مطابق) کوئی بھی ایسا معاملہ جو کسی قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری وسیع ترتعریف کے مطابق کوئی بھی ایسا معاملہ ہو سکتا ہے جس میں آئینی اصولوں کی روشنی میں قانون یا حکومت کی قانونی حیثیت تشریح طلب ہو۔ تیسری، وسیع ترین تعریف آئین کے آرٹیکل 199 یا آرٹیکل 184 (3) (جسے ہم فی الحال ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا آئینی دائرہ اختیار کہتے ہیں) کے تحت آنے والاکسی بھی قسم کا مقدمہ (یا کوئی اپیل) ہو سکتا ہے۔ اتفاق سے افشا ہونے والے بل میں تیسری تعریف سامنے آئی ہے۔ آپ ججوں کی تقرری اور ہٹانے کے طریقہ کار میں اصلاح کرسکتے ہیں ، لیکن اس کیلئے کسی نئی عدالت کی ضرورت نہیں ، یہ کام موجودہ عدالتوں میں بھی ہوجائیگا۔ ہم نے ایک ایسے نظام سے آغاز کیا جہاں حکومتوں نے ججوں کا تقرر کیا۔ ہم وہاں چلے گئے جہاں چیف جسٹس نے ججوں کا تقرر کیا۔ پچھلے پندرہ برسوں سے ہم نے ایک ہائبرڈ ماڈل استعمال کیا جس میں عدلیہ، حکومت، بار اور اراکین پارلیمنٹ کی رائے شامل رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن نئی عدالت کی تشکیل یہ مقصد کس طرح پورا کرتی ہے؟ اور اگر سپریم کورٹ کا مسئلہ حد سے زیادہ سیاست کرنا ہے تو کیا کوئی ایسی نئی عدالت کا تصور کر سکتا ہے جہاں سیاستدان تقرریوں میں زیادہ اختیار رکھتے ہوں اور اس سے سیاست میں کمی آجائے ؟

تازہ ترین