سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرِثانی کی اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر کمرۂ عدالت نہیں آئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔
جسٹس منیب اختر نے خط میں لکھا کہ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیا جائے، میرے خط کو نظرِ ثانی کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔
خط کے متن کے مطابق 63 اے نظرِ ثانی کیس آج 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، 5 رکنی بینچ 23 ستمبر کی ججز کمیٹی میں ترمیمی آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا، ترمیمی آرڈیننس کے تحت بینچز کی تشکیل پر سینئر جج نے خط میں آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب میں سینئر جج کو خط لکھا،انہوں نے اپنے خط میں آئینی سوالات کا جواب نہیں دیا، افسوس کی بات ہے ان کے خط پر ایک میم چلی
خط میں جسٹس منیب جانب سے کہا گیا کہ کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ میں چیف جسٹس نے سینئر جج کی سربراہی میں بینچ کی رائے دی، وہ اب بینچ کے سربراہ کیوں بنے،وجوہات سامنے نہیں آئیں، لارجر بینچ میں ایڈہاک جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو شامل کیا گیا، 19 جولائی کی ججز کمیٹی میں ایڈہاک ججز کے امور طے کر لیے تھے، یہ درست ہے کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے
جسٹس منیب کا کہنا ہے کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی بینچ میں شمولیت آرٹیکل 182 کے خلاف ہے، موجودہ حالات میں 63 اے نظرِ ثانی کی سماعت کے بینچ میں شمولیت سے معذرت کرتا ہوں، میرا خط 63 اے نظرِ ثانی کیس کی فائل کا حصہ بنایا جائے، بینچ میں عدم موجودگی کا غلط مطلب نہ سمجھا جائے، آرٹیکل 63 اے نظرِ ثانی معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے کمیٹی میں اقلیت میں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا وہ بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے، نظرِ ثانی کیس دو سال سے زائد عرصے سے زیرِ التواء ہے، 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر کی رائے کا احترام ہے، ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ بینچ کل دوبارہ بیٹھے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کا تقاضہ ہے کہ نظرِ ثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے گا، سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا، ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بینچ میں بیٹھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منیب اختر کو بینچ میں شامل ہونے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو بینچ میں واپس لانے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل ازسرِ نو ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اُمید ہے کہ جسٹس منیب اختر دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں کل کیس کی سماعت ہو گی۔
سپریم کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل کا وکالت نامہ منظور کر لیا۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ مقدمے میں پی ٹی آئی فریق تھی، جیل اتھارٹیز نے بانیٔ پی ٹی آئی کے دستخط نہیں ہونے دیے، مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنا دیا جائے۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا نظرِ ثانی میں فل کورٹ بنانے کا قانون موجود ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ جی ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تھینک یو ویری مچ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا جب تک کوئی عدالت آرڈیننس معطل نہ کرے تو کیا اس پر عمل درآمد روکا جا سکتا ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس پر عمل درآمد نہیں روکا جا سکتا۔
جس کے بعد سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے تشریح کے فیصلے پر نظرِ ثانی اپیلوں پر سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔