ملکوں کے درمیان تعلقات حتمی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اِن تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں ملکوں کے درمیان دشمنیاں،دوستی اور دوستیاں ،دشمنی میں بدل گئیں۔ پڑوسی ملک افغانستان کی مثال ہے جس کا پاکستان نے ہمیشہ دوست کی طرح ساتھ دیا اور افغانستان پر سوویت یونین (روس) کے تسلط اور سوویت، افغان جنگ کے دوران 40لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی کئی دہائیوں تک مہمان نوازی کی۔ اسی طرح 2001ءمیں بھی امریکہ، افغان جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دی اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکی انخلا کے بعد جب افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو سمجھا یہ جارہا تھا کہ طالبان حکومت، پاکستان کے احسانات کو یاد رکھے گی مگر اقتدار میں آتے ہی طالبان حکومت نے پاکستان سے نہ صرف آنکھیں پھیرلیں بلکہ پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو اپنے ملک میں پناہ دی جو سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے جبکہ بھارت نے افغانیوں کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ افغان قونصل جنرل نے پاکستان کے قومی ترانے کا احترام کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار رہے اور شیخ حسینہ واجد کے ادوار حکومت میں دونوں ممالک کے تعلقات 1971ءکے تاریخ کے ارد گرد ہی گھومتے رہے۔ حسینہ واجد کے 15سالہ دور حکومت میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو بھارت کی نظروں سے دیکھا اور یہ تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دونوں ممالک کے لوگوں اور بزنس مینوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تقریباً رک گیا مگر وقت نے اچانک کروٹ بدلی اور بنگلہ دیش میں طلباء تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد وہ سرزمین جہاں پاکستان کا نام لینا بھی جرم سمجھا جاتا تھا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔
پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر روح العالم صدیق سے میرے اس وقت سے مراسم ہیں جب وہ 2010 سے 2014 کے دوران کراچی میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔ بعد ازاں وہ 3 سال پہلے پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے۔ روح العالم صدیق کا شمار پاکستان کے اُن دوستوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حسینہ واجد دور حکومت میں جب بنگلہ دیش کے دروازے پاکستانیوں کیلئے بند تھے، بنگلہ دیش جانے والے پاکستانی بزنس مینوں کی وقتاً فوقتاً مدد کی۔ گزشتہ دنوں وہ میری دعوت پر اہلیہ کے ہمراہ کراچی تشریف لائے اور میں نے اُنکے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر عشایئے کا اہتمام کیا۔ تقریب میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنرمحبوب العالم، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ اور معروف بزنس مینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ استقبالیہ تقریر میں، میں نے مہمان خصوصی روح العالم صدیق کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دو برادر اسلامی ملک ہیں جو اخوت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں، وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک No Visa اور No Tariff کی پالیسی اپنائیں تاکہ دونوں ممالک کے بزنس مین آزادانہ طور پر ایک دوسرے ممالک کا دورہ کرسکیں اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ ہو۔ اس موقع پر روح العالم صدیق نے اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کی اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ہونے والی ملاقات کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے رہنمائوں نے معاشی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی مشترکہ خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد ڈاکٹر محمد یونس کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ حالیہ دورہ امریکہ میں وہ اپنے ساتھ اُن اسٹوڈنٹس کو بھی لے گئے جنہوں نے حسینہ واجد حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا اور فوجی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے پروگرام Clinton Global Initiative میں انہی اسٹوڈنٹس کے ساتھ شرکت کی۔ تقریب میں امریکہ کے صدر جوبائیڈن بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد یونس نے حسینہ واجد حکومت کے خلاف تحریک میں سرگرم طلباء تنظیم کے نوجوان رہنما محفوظ عالم کو متعارف کراتے ہوئے کہا کہ حسینہ واجد کو اقتدار سے ہٹانے میں اس نوجوان کا اہم کردار تھا، یہ تحریک اس نوجوان نے اچانک شروع نہیں کی بلکہ اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا، تحریک کی قیادت بھی اسی نوجوان نے تیار کی اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ لیڈر کون ہے۔
دو بھائیوں کے درمیان جب دشمنیاں دوستی میں بدلتی ہیں تو دلوں سے پرانی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حکومتوں بلکہ ممالک کے عوام کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کیلئے محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ آج سے کچھ سال قبل کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم، بنگلہ دیش کے سربراہ سے ملاقات کریں گے اور انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دیں گے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی موجودہ نسل سقوط ڈھاکہ کے بعد پیدا ہوئی اور ان کے دلوں میں نفرت اور رنجشیں نہیں بلکہ ایک دوسرے کیلئے عزت و احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں جس کی زندہ مثال حال ہی میں بنگلہ دیش کی اسٹوڈنٹس تنظیم کا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی منانا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیر اعظم شہباز شریف جلد ہی بنگلہ دیش کا دورہ کریں اور اپنے وفد میں سیاستدانوں کے بجائے بزنس مینوں اور نوجوانوں کو شامل کریں تاکہ ماضی کو بھلا کر نئے دور کا آغاز ہو سکے۔