وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیا۔ یہ وہ بین الاقوامی فورم ہے جو یہودیوں کی گرانٹ سے چلتا ہے اور یہودیوں سمیت ہر اس جارح قوت کا ساتھ دیتا ہے جو دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہو، خواہ وہ ناجائز یہودی ریاست اسرائیل ہو یا امریکہ، بھارت ہو یا کوئی چوتھا ملک اس نے ہمیشہ ظلم کا ساتھ دیا ہے اور جہاں عالمی مفاد ہو، جہاں پر ایک عیسائی ریاست بنانی ہو وہاں اس ریاست کے مستقبل کا دِنوں میں تصفیہ کردیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرز کی ایک اسلامی تنظیم بھی اس روئے ارض پر پائی جاتی ہے جسے دنیا اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے نام سے جانتی ہے جسے ’’Oh I See‘‘ کہا جاسکتا ہے، اسے عرب ممالک فنڈز دیتے ہیں اور اس کا کردار بھی ’’مثالی‘‘ ہے۔ اس کی کہیں بھی سنوائی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک بات چیت کا فورم ہے جہاں اسلامی ممالک کی قیادتیں آکر اپنے ’’دکھڑے‘‘ بیان کرتی ہیں اور بس۔ بہ قول مشیر کاظمی
اپنے دل کے دکھڑے یوں سناتے ہیں
کہ پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
وزیر اعظم کا خطاب اقوام عالم کے سامنے جاندار اور پر اثر بھی تھا، انہوں نے چودہ صفحات پر لکھی گئی انگریزی تقریر پڑھی اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی لیکن عالمی قوتوں کی موجودگی میں اقوام عالم کے سامنے اسرائیلی جارحیت و مظالم پر اس کے خلاف پابندیاں لگانے، اسے دنیا میں تنہاکرنے کا کوئی مطالبہ نہ کیا۔انہیںاس عالمی فورم پر دنیا کے لیڈروں کے سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کا اسرائیلی ناجائز ریاست کے بارے میںوہ بیان دہراناچاہئےتھا جس میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘ قائد اعظم نے اسرائیل کے سفارتی تعلقات کیلئےبھیجے گئے ٹیلی گرام کے جواب میں یہ سخت ترین الفاظ تحریر کئے تھے۔ کیا یہ موقف سنہری حروف میں لکھنے کے قابل نہیںہے؟ قائد اعظم محمد علی جناح نے فلسطین کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ممکنہ یہودی ریاست کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی تھی اور غالباً برصغیر میں وہ اس وقت سب سے طاقتور آواز تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں قائد اعظم نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش کرنے پر امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے‘‘۔وزیر اعظم کا خطاب میں کہنا تھا کہ ’’ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں جب ہم مقدس سر زمین میں رونما ہونے والے سانحہ کا مشاہدہ کرتے ہیں، یہ ایک ایسا المیہ ہے جو انسانیت کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے ’’دو ریاستی حل‘‘ کے ذریعے دیرپا امن کی وکالت کرنے سے پہلے اس خون ریزی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چند دنوں کے عرصے میں لبنان پر اسرائیل کی مسلسل بمباری سےپانچ سو سے زائد افرادشہید ہوچکے ہیں جن میں حزب اللہ کے سپریم لیڈر حسن نصراللہ اور ان کی بیٹی بھی شامل ہیں، وزیر اعظم نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان کے مطابق اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد میں ناکامی نے اسرائیل کو حوصلہ دیا جس سے پورے مشرق وسطیٰ کو ایک ایسی جنگ میں گھسیٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کے نتائج سنگین اور ناقابل تصور ہوسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ تقابل درست تھا کہ فلسطین کے لوگوں کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی ایک صدی سے اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے امن کا راستہ ترک کرنے اور جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے اپنے وعدوں سے مکرنے پر اقوام عالم کو آگاہ کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پانچ اگست 2019کے بعد سے بھارت نے جموں و کشمیر کیلئے ’’حتمی حل‘‘ کو مسلط کرکے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کیے ہیں۔ ایک کلاسک نو آبادیاتی منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بھارت کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر رہا ہے اور غیر ملکیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کشمیری عوام اس غلط ہندوستانی شناخت کو مسترد کرنے کیلئے پر عزم ہیں جو بھارت ان پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی رہنمائوں نے اکثر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر ’’کنٹرول‘‘ حاصل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ ’’میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دے گا‘‘ دیرپا امن کو یقینی بنانے کیلئے، انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ پانچ اگست 2019 میں کیے گئے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لے اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازع کے پر امن حل کیلئے بات چیت میں شامل ہو۔
وزیر اعظم نے سیلاب سے پاکستان میں ہونے والے نقصانات پر عالمی برادری کو ان کے ’’وعدہ ہائے فردا‘‘ بھی یاد دلائے کہ دو سال قبل پاکستان میں آنیوالے سیلاب سے تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان کو امید ہے کہ اس کے ترقیاتی شراکت داروں کی جانب سے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں معاونت کیلئے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں گے، بشمول موسمیاتی کارروائی کے شعبے میں، اسی طرح انہوں نے نشان دہی کی کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو ایک سو پچاس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب کو امید افزأ قرار دیا جاسکتا ہےسب سے بڑھ کر یہ کہ صیہونی وزیر اعظم کی جارحانہ تقریر کا پاکستانی وفدنے واک آئوٹ کرکے اسے نہ سننے کا جو مہذب احتجاج کیا ہے اس پر عالمی برادری شاید ضرور غور کرے کہ جو اسرائیل ان کی آنکھوں کا تارا ہے اس کی مسلم اور غیر جانبدار ممالک کی قیادتوں کی نظر میں دو ٹکے کی بھی اوقات و حیثیت نہیں ہے۔