جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (پیدائش 5اکتوبر 1924 ءوفات 3اکتوبر2015) میرے مہربان دوست، استادِ محترم اور مربی و محسن تھے، آج وہ لمحات قابل فخر وانبساط محسوس ہوتے ہیں جو ان کی معیت میںگزرے، ان سے جی بھر کے باتیں ہوتیں مگر پھر بھی پچھتاوا ہے کہ کاش دیگر بہت سارے موضوعات بھی تھے ان پر ڈاکٹر صاحب سے رہنمائی کیوں نہ لی کتنا اچھا ہوتا کہ ان کے ساتھ نجی نوعیت کی بحثیں کرنے کی بجائے یا قلم دوات والی باتیں لکھنے کی نسبت سکرین والے انٹرویوز کیے ہوتے ، آج یہ کتنا بڑا اثاثہ ہوتے اپنی” کتاب جمہوریت یا آمریت‘‘کی تقریب رونمائی کیلئے پروگرام بنایا کہ ڈاکٹر صاحب اس کی صدارت فرمائیں گے، شامی صاحب بولے ڈاکٹر صاحب تو آپ کے پروگراموں میں آتے رہتے ہیں آپ اس تقریب کیلئے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو بلا لیں تو سرکاری ریفرنس آنے سے زیادہ بہتر کوریج ہو جائیگی اس طرح اپنی اگلی کتاب کا مسودہ ڈاکٹر صاحب محترم کو پیش کیا کہ آپ اس پر دیباچہ تحریر فرما دیں، ڈاکٹرصاحب گویا ہوئے میری آپ کے ساتھ پوری ذہنی ہم آہنگی ہے اس لیے آپ اس پر میری جانب سے ازخود دیباچہ تحریر کر لائیں میں اس کے نیچے اپنے دستخط ثبت کر دوں گا،عرض کی ڈاکٹر صاحب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی آپ اس مسودہ کو چیدہ چیدہ خود پڑھیں اور اپنے مبارک ہاتھوں سے خود ہی دیباچہ تحریرفرمائیں بولے تجویز تو میری زیادہ پریکٹیکل ہے لیکن اگر آپ یہی چاہتے ہیں تو دے جائیں ، میری طبیعت ذرا بہتر ہوتی ہے تو اسے پڑھنے کے بعد ہی کچھ تحریر کر پاؤں گا۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب کے سامنے کچھ مذہبی سوالات رکھے کہ آپ ان کے جوابات چاہے تو لکھ کر عنایت فرمائیں چاہے بول کر مجھے لکھوا دیں، میرے سوالات کچھ پڑھنے اور کچھ سننے کے بعد گویا ہوئے کہ آپ کے یہ سوالات بیشتر الٰہیات کے حوالے سے ہیں بہتر ہو گا اگر آپ یہ تمام تر سوالات میری بجائے جاوید غامدی کے سامنے اٹھائیں؟ ان مذہبی امور پر وہ میری نسبت آپ کی بہتر رہنمائی کر سکیں گے عرض کی ڈاکٹر صاحب یہ سوالات رہنمائی کیلئے کون اٹھا رہا ہے؟ ان کے جوابات تو میں خود بہتر دے سکتا ہوں اصل ایشو یہ ہے کہ یہ باتیں میں آپ کی زبانی نکلوانا یا سنانا چاہتا ہوں تاکہ بعد والے لوگوں کے کام آئیں اور آنے والی نسلیں آپ کے ماڈریٹ تھاٹ کو جان سکیں۔
ایک دن یوم اقبال کے حوالے سے کچھ باتیں اٹھائیں کہ کل فلاں جگہ آپ کی تقریر ہے آپ یہ باتیں وہاں فرمائیں ڈاکٹر صاحب بولے ،میں تو اب اتنا توانا نہیں رہا کہ بحث در بحث میں الجھوں آپ ماشاء اللّٰہ جوان ہیں اس نوع کی متنازع اور بولڈ باتیں آپ کو اٹھانی چاہئیں۔ عرض کی ڈاکٹر صاحب علامہ صاحب کے بارے میں اس نوع کی گفتگو میں کروں گا تو لوگ مجھ پرپتھر اٹھا لیںگے آپ فرمائیں گے تو فرزند اقبال کے فرمودات کہتے ہوئے برداشت کر لیں گے ۔
مولانا مودودی کی مذہبی فکر کو ڈاکٹر صاحب پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے متعلق ڈاکٹر صاحب اتنی سخت رائے نہیں رکھتے تھے جتنی یہ ناچیز رکھتا تھا ایک دن کسی گفتگو کے دوران یہ بھی فرمایا کہ میں نے جب قرآن کا ترجمہ دیکھنا ہوتا ہے تو مودودی صاحب کا ترجمہ دیکھتا ہوں کیونکہ وہ زیادہ سہل، بامحاورہ اور سیدھی اردو میں ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد کے متعلق چند مواقع پر وہ سخت بولے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر اسرار کے ساتھ اکٹھے شریک ہونے والے کچھ مذاکروں کا تذکرہ بھی کیا جن میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول ڈاکٹر اسرار علامہ صاحب کو اپنے خیالات کی مناسبت میں بگاڑ کر پیش کر رہے تھے پھر بولے سب نے اپنی اپنی مرضی اور پسند کا اقبال بنا رکھا ہے اصل اقبال کیا تھا؟ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں، ساری سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈران سے ڈاکٹر صاحب نالاں تھے شاید نواز شریف کیلئے بعض اوقات کچھ نرمی برت جاتے تھے۔ (جاری ہے)