• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عُمر اسرار، بھکر

کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس مُلک میں سب سے زیادہ جھوٹا، مکّار اور چور ’’عام آدمی‘‘ ہے۔ یہ ’’عام آدمی‘‘، جس کی جمع عوام ہے، انتہائی بے حِس، ڈھیٹ اور بد دیانت ہے۔ گرچہ یہ سیاست میں ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ میں، بیورو کریٹ ہے نہ جرنیل، مگر یہی سب سے بڑا فرعون اور اپنے جیسے دوسرے عام افراد کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ’’ عام آدمی‘‘ پھل فروش ہو، تو جان بوجھ کر گلے سڑے پھل گاہک کے تھیلے میں ڈال دیتا ہے۔

موٹر سائیکل چلاتا ہے، تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ ویگن اور بس چلاتا ہے، تو ہلاکت خیزی کی علامت بن جاتا ہے اور لوگ اس سے دُور بھاگتے ہیں۔ یہ ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے، تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔ یہ سرکاری دفتر میں کلرک بن کر بیٹھتا ہے، تو سانپ کی طرح پھنکارتا اور بِچّھو کی مانند ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے نکلتا ہے، تو واپس نہیں آتا اور سائلین انتظار کر کر کے بالآخر مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں۔

یہ ’’عام آدمی‘‘ اگر تاجر ہے، تو گاہکوں کو اپنا غلام اور خود کو ہامان سمجھتا ہے۔ صبح خریدے گئے جوتے شام کو واپس کرنے جائیں، تو تبدیل تک نہیں کرتا۔ دوسری جانب اُس کا گاہک بھی ایک’’ عام آدمی‘‘ ہی ہے، جو جوتے اچھے خاصے استعمال کرنے کے بعد واپس یا تبدیل کروانے آتا ہے۔ امریکا وغیرہ میں بھی یہ ’’عام آدمی‘‘، جو ہم نے یہاں سے بر آمد کیا ہے، دھوکا دہی سے باز نہیں آتا۔ مہمانوں کی گھر آمد پر سُپر اسٹور سے نئے گدّے خریدتا ہے اور مہمان چلے جائیں، تو واپس کر آتا ہے۔ یہ عام آدمی انگلستان میں گھر سے باہر نکلے، تو وہیل چیئر پر ہوتا ہے اور گھر کے اندر ہو، تو خوب اچھلتا کودتا ہے۔ یہ ’’عام آدمی‘‘ گھر کا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکتا ہے۔ 

یہ دو کروڑ روپے مکان کی تعمیر پر خرچ کر دیتا ہے، مگر چند ہزار کی بجری گھر کے سامنے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر نہیں ڈلوا سکتا۔ یہ ’’عام آدمی‘‘ گھر تعمیر کرتا ہے، تو گلی کا کچھ حصّہ گھر میں شامل کر لیتا ہے۔ دُکان ڈالتا ہے، تو نہ صرف فُٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ اگر اس ’’عام آدمی‘‘ کو تجاوزات کی شکل میں ہونے والے فائدے کا حساب لگائیں، تو یہ حُکم رانوں کی کرپشن سے کئی گُنا بڑی کرپشن ثابت ہوگی۔

یہ ’’عام آدمی‘‘ گیس کے محکمے میں ملازمت اختیار کرتا ہے، تو رشوت لے کر چوری چُھپے ناجائز گیس کنیکشنز دیتا ہے۔ اگر بجلی کے محکمے میں اس کا تقرّر ہو جائے، تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ اگر کسی ادارے میں ٹیلی فون آپریٹر لگ جائے، تو فون ہی نہیں اُٹھاتا۔ آزما لیجیے، کالز کر کر کے آپ کے گُردے ناکارہ ہو جائیں گے، مگر آپریٹر کال ریسیو نہیں کرے گا۔ یہ ’’عام آدمی‘‘ ہی ہے کہ جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ بہ خوشی سیاست دانوں، اُن کے بچّوں اور دیگر اہلِ خانہ کی غلامی کرتا ہے۔ 

یہ زندگی بھر اُن کے جلسوں میں دریاں بچھاتا، نعرے لگاتا اور اُن کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ اُن کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے لڑتا جھگڑتا ہے، حتیٰ کہ اُن سے تعلقات تک منقطع کر لیتا ہے، مگر اپنی اور اپنے کُنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے اور نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا ہے۔ 

غُربت نسل در نسل اس کے خاندان میں راج کررہی ہو گی، مگر یہ فخر سے کہتا رہے گا کہ ’’ہم اتنی نسلوں سے فلاں سیاسی جماعت کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘ یہی ’’عام آدمی‘‘ سیاست دانوں کے کبیرہ گناہوں کے جواز تراشتا ہے اور اُن کی غلطیوں پر غضب ناک ہونے کی بہ جائے اُن کا دفاع کرتا ہے۔

یہ ’’عام آدمی‘‘ اپنے جیسے ’’عام آدمی‘‘ کو اذیّت پہنچاتا ہے۔ بیٹے کی شادی کرے، تو لڑکی والوں سے ڈھیر سارا جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کوبیاہے، تو اُسے نندوں اور ساس کو چلتا کرنے یا اُن کے اختیارات چھیننے کی ترغیب دیتا ہے۔ مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے، تو امام صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے، تو کم تولتا ہے۔ کسی کے گھر میں ملازم ہو، تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے، تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں، فقیروں کے پیچھے بھاگ کر خوار و زبوں حال ہوتا رہتا ہے، مگر گھر بیٹھے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔

یہ ’’عام آدمی‘‘ چاہتا ہے کہ سارے سیاست دان اور حُکم راں راتوں رات عُمر بن عبد العزیزؒ بن جائیں۔ یہ دن رات اُن پر تنقید کرتا ہے اور اسے پورا یقین ہے کہ اس مُلک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے، تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست، مذہب، مُلکی نظام اور امریکا سے متعلق کہا گیا اُس کا ہر حرف، حرفِ آخر ہے اور صرف وہی عقلِ کُل ہے۔ وہ بڑے وثوق سے یہ کہتا ہے کہ اگر مُلک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے، تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔

یاد رہے کہ جس دن یہ ’’عام آدمی‘‘ انسان بن گیا، تو معاشرے سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، لیکن اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے ’’صفحۂ متفرق‘‘

والدین کی منفی سوچ اور معاشرے کے برے اثرات (یاسمین طاہر) چیئرمین نیپرا نوٹس لیں (عماد احمد سلیمان خیل ، کراچی) کتابیں، کتاب، شجرکاری، سوئی گیس، اے جی سندھ کے نام مراسلہ، ماہِ رمضان کی آمد، الیکشن، 25دسمبر، عام انتخابات (شری مرلی چند گھوکھلیہ، شکار پور، سندھ)مدراس چوک گلزار ہجری پر فلائی اوور کی ضرورت ، ہمارانظامِ تعلیم ، اصلاحات کی ضرورت، ہجری روڈ کا سیکنڈ ٹریک تعمیر کے لیے توجہ کا منتظر ، مدراس چوک پر فلائی اوور کی ضرورت، بجلی کے بلوں میں کٹوتی، اے اللہ! پاکستان کو بھی چاند پر پہنچا (صغیر علی صدیقی، کراچی) خواتین کے خواصِ خمسہ، قرآنِ مجید کی دل چسپ معلومات، میرے نئے سال کا پہلا دن، قصّہ میری پڑوسن کا، گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے خواصِ خمسہ، ہم نہ مانیں گے، اب آئی چور کی شامت، دو طوطوں کی آپ بیتی (ڈاکٹر افشاں طاہر، کراچی) نواب بہادر یار جنگ بحیثیتِ شاعر، پروفیسر ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین )ریٹائرڈ ملازمین پر توجّہ کی درخواست (طاہر حسین) بحیثیتِ مسلمان ، پاکستانی قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟ (شیما فاطمہ ، کراچی) ایمل ولی کا درد ناک، افسوس ناک بیان، شوگر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں ، گورنمنٹ ٹیچر سوسائٹی میں پانی کا قحط، آئی ایم ایف اور نیپرا کا عوام کو جھٹکا،وفاقی وزیرِ خزانہ کے اقدامات، 24 کروڑ عوام کو منہگائی مار گئی، بابر اعظم اور ذکا اشرف صاحب، عرب کہاں ہیں ؟،لاوارث کراچی، کراچی تا خیبر غریب عوام کو انصاف دلایا جائے (شہناز سلطانہ، رِمشا طاہر، کراچی) فلسطین کی آزادی ، عالمِ اسلا م کا خواب، فلسطین لہولہو (شہناز سلطانہ، کراچی) کامیڈی کنگ، عُمر شریف (فیصل کانپوری) غازی علم دین شہیدؒ، فاتح سندھ، محمد بن قاسم، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی، شعبان المعظم، صدقۂ فطر، روزہ، دوسری اقوام و مذاہب میں، اسلام میں محنت کش کا مقام، پاکستان بطور ایٹمی طاقت (بابر سلیم خان، لاہور) اقبال، ایک حقیقت پسند شاعر (فضل محمود ناؤلی، میر پورخاص) حضورِ اکرمؐ کا آخری اور مکمل پیغام (غلام نبی لغاری، سانگھڑ)قصّۂ قومِ موسیٰؑ (شگفتہ بانو، لالا زار، واہ کینٹ)، بھیک برادری(حلیم عرشی)، 6 ستمبر1965ء کی اصل کہانی(حکیم پیر ولی، لاہور) فلسطین کے مسلمان (کاشف) پلاٹ پر قبضہ (نواز چوہدری) لات، عزیٰ اور منات کی تاریخ (ملک نور ایڈووکیٹ)۔

سنڈے میگزین سے مزید