اقوام متحدہ کے کار ہائے نمایاں میں ایک کامرانی بڑی حیرت انگیز ہے ۔ اقوام متحدہ کے کیلنڈر میں تین سو پینسٹھ(365)سے زیادہ دن ہوتے ہیں۔ آپ گن نہیں سکتے ۔میں بھی گن نہیں سکتا۔اقوام متحدہ نے سال کا ایک ایک دن کسی حوالے سے منانے کااعلان کیا تھا۔ یہ برسوں پہلے کی بات ہے مثلاً دادا کا دن، اس دن آپ کو اپنے دادا مرحوم یا دادا حضور کو یاد رکھنا ہوتا تھا اوران کو کوئی کھلونا تحفہ میں دینا پڑتا تھا۔ اسی طرح ایک دن دادی کو یاد رکھنے کے لئے مختص ہوتا تھا۔ والد کا دن،والدہ کا دن ،ساس کا دن،سسر کا دن،چچاکا دن، چچی کادن، اگر آپ سندھی ہیں تو پھر آپ کو چاچا اور چاچی کو دو مختلف مخصوص دنوں پر یاد رکھنا ہوگا۔ایک دن سوتیلی ماں کا اور ایک دن سوتیلے باپ کا دن بھی یاد رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کی طرف سے ممبر ممالک کو تلقین کی جاتی ہے ۔ سوتیلے باپ اور سوتیلی ماں کی طرف سے ملے ہوئے عذاب اور صعوبتیں یاد رکھنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہوتی۔ منائے جانے والے دنوں میں ہوش ربا اضافہ تب ہوا جب اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے اپنی طرف سے مختلف دن منانے کی تجویزیں دینا شروع کردیں ۔ اس کے بعد منائے جانے والے اور یاد رکھنے والے دنوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا۔ استاد کے ساتھ چھوٹے کا دن منایا جانے لگا۔ گیراج میں استاد کی نگرانی میںکام سیکھنے اور ڈانٹ کھاتے ہوئے ایک دن چھوٹا بذات خود استاد بن جاتاہے اور اسکول جانے سے محروم بچوں کو چھوٹا بنا کر ان کی تربیت شروع کردیتا ہے ۔ورنہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی طرف سے استاد کا دن الگ اور چھوٹے کا الگ دن منایاجاتا تھا۔ اب ایک ہی دن چھوٹے اور استاد کا دن منایا جاتا ہے ۔ بھیڑ بھاڑ بڑھ جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے ایک ہی روز ساس اوربہو کا دن منایا جاتا ہے ۔ بہر حال سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں مگر اقوام متحدہ کی جانب سے سال میں سات سو مختلف نوعیت کے دن منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں میں جیلر اور قیدی کا دن بھی منایا جاتاہے۔ ووٹ لینے اور دینے والے کے لئے ایک ہی دن مختص کیا گیاہے۔
پچھلے ہفتے یعنی پہلی اکتوبر کے روز بڈھوں کا دن، یعنی سینئر سٹیزنز ڈے بڑی دھوم دھام سے منایا گیا تھا۔ ایٹمی بموں سے مالا مال ہمارا ملک پاکستان اقوام متحدہ کا طاقتور ممبر ہے ۔ ہم جب چاہیں جس کی چاہیں اینٹ سے اینٹ بجاسکتے ہیں۔ کسی بھی بیہودہ ملک کو ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت جو ہیں ! دنیا کے بھیانک بم، بھوک اور افلاس یعنی معاشی بحران کا مقابلہ بھی ہم ایٹم بم سےکرسکتے ہیں۔ پچیس کروڑ کی آبادی کو تھوڑا تھوڑا ایٹم بم کھلا کر پُرجوش کرسکتے ہیں ۔ عوام جذبوں سے سرشار،جوش وجنون سے سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ اور اسرائیل کو ٹھکانے لگانے کے لئے یروشلم کا رخ کرتے ہیں ۔ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ملیا میٹ کردیتے ہیں۔ بڑی مشکل سے اور بڑی منت سماجت سے جنونی جذبوں سے کھولنے والے عوام کو بیت المقدس جانے سے باز رکھا جاتاہے ۔ اس کا گھاٹا، اس کا خمیازہ حکومت وقت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ جنونی عوام روڈ راستوں پر نظر آنے والی ہر چیز کو یہودیوں کی املاک سمجھ کر نیست و نابود کردیتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے ہر ممبر ملک کی اپنی تہذیب و تمدن ، اپنی روایات ، اپنے رویئے اور اپنی عادات و اطوارہوتے ہیں۔ سب ممبرممالک اپنے طور طریقوں سےسینئر سٹیزنز یعنی بڈھوں کا دن مناتے ہیں ۔ ہم پاکستانی اپنے طور طریقوں سے میری طرح بڈھے کھوسٹوں کا دن مناتے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ والوں نے بوڑھوں کا عالمی دن منانے کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اپنا لی ہے ۔ ان کی اپنی ٹیکنالوجی ہے جو چاہیں وہ اپنی ٹیکنالوجی سے کام لے سکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے چونکہ دنیا بھر کے ممالک کو روزانہ کوئی نہ کوئی دن منانے کے چکر میں ڈال دیا ہے ۔ اس لئے اس دن کی اہمیت کے حوالے سے دکان اور مال تحفے تحائف ، چاکلیٹ ، سوغات اور رنگ برنگے کارڈوں سے کھچا کھچ بھر دیئے جاتے ہیں ۔ شام ہونے تک تمام چیزیں بک جاتی ہیں۔ دوسرے روز دوسرے دن کے حوالے سے دکانوں کو تحائف اور گریٹنگ کارڈوں سے سجایاجاتا ہے ۔ یہ دھندہ سال بھر چلتا رہتا ہے ۔ پہلے تو یورپ اور امریکہ والے کرسمس کا تہوار مناتے تھے ۔ اقوام متحدہ نے ان کو سال بھر کے لئے روزانہ ایک یا دو یا تین دن کسی نہ کسی حوالے سے منانے کے چکر میں ڈال دیا ہے ۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستانیوں نے سال بھر کے جھنجھٹ سے اب تک اپنے آپ کو بچا کر رکھا ہوا ہے ۔ ہم کتے، بلیوں ، خرگوشوں کے دن نہیں مناتے ۔ اقوام متحدہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے ہم اپنی مرضی کے دن مناتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اقوام متحدہ کو ہماری سرکشی اچھی نہیں لگی ہے کوئی وجہ تو ہے کہ آئی ایم ایف نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے ۔ آج کے روز مجھے میرا بڈھا دوست بہت یادآتا ہے ۔خیر سے بال بچوں والا ہے ۔ لاڈلے بیٹے اور اس کی بیوی یعنی میرے بوڑھے دوست کی بہو نے میرے دوست اور اس کی عمر رسیدہ بیوی کو اپنی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رکھا ہوا ہے ۔ ہم عمر دوستوں نے بوڑھے دوست کی منتیں کی تھیں کہ کبھی بھول کر اپنی جگہ یعنی مکان اپنے لاڈلے بیٹے کے نام مت کرنا۔ وصیت چھوڑ دینا کہ تیرے کوچ کرنے کے بعد تیری کوٹھی کا واحد مالک تیرا اکلوتا بیٹا ، بیٹی ہوگی۔ نہیں مانی ہمارے دوست نےہم دوستوں کی باتیں ، خاص طور پر مشورہ سننے کے بعد اس نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا ۔ ’’تو اس معاملے میں اپنی ٹانگ مت اڑا۔ تیری نہ بیٹی ہے نہ بیٹا۔ تجھے کیا پتہ بہو اپنے سسر اور ساس کی کتنی خدمت کرتی ہے ‘‘۔ میرا بوڑھا دوست اپنے ہی مکان کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہےبہو اسے دو وقت کا بچا کھچا کھانا بھیج دیتی ہے ۔