ایسی عبقری شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جن کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ گمراہ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے۔ آپﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اے علی! اگر تمہارے ذریعے کوئی ایک شخص بھی راہِ راست پر آ جائےتو یہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ذریعے 11 لاکھ سے زائد انسان مسلمان ہوئے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں۔ دنیا کے 170 ممالک میں انہوں نے دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ کیلئے اسفار کیے اور لاکھوں کے مجمع سے خطاب کیے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اشاعتِ اسلام، فلاحِ انسانیت اور خدمتِ خلق کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔ ان کا جینا مرنا اللہ کیلئے ہے۔
قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتاہے: وذکر فان الذکری تنفع المومنین ۔ ایک دوسرے کو یاد دہانی کرانے اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھو، یہ چیز ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔ یعنی ان کے ایمان میں اضافے اور تقویت کا باعث بنتی ہے۔ تذکیر اور وعظ و نصیحت ایک قابلِ تحسین عمل ہے، قابلِ تنقیدنہیں کہ جس پر تنقید کی جائے۔اندازِ خطابت میں جوش اور اپنی بات کو دوہرا کر دلائل و براہین سے کہنا سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ آپ ﷺ کے خطبات کے اوصاف میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں کہ آپ ﷺ عالمِ جوش میں بیان فرماتے تھے اور آپ ﷺ بات کو دہراتے تھے۔ البتہ فرقہ واریت کو ابھارنا، لسانیت، عصبیت کو ہوا دینا اور اس سے تشدد کو ہوا دینا انتہائی قابلِ مذمت عمل ہے۔ لیکن ایسی چیزوں کو عالمی سطح پر مانے جانے والے مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے منسوب کرنا یا ان کی طرف اشارہ کرنا انتہائی بد نیتی پر مشتمل ایک ایسا عمل ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے اور ایک معزز مہمان کو ایسا کہنا اور زیادہ برا کام ہے۔مہمان کیسا بھی ہو ،اس کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔
اس بات کو تو پوری دنیا مانتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب تقابلِ ادیان پر اتھارٹی ہیں۔ دلیل، فلسفے اور منطق میں ان کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں ہے۔ ان کے مطالعے، تحقیق، ریسرچ اور حافظے کا یہ عالم ہے کہ انہیں کتابیں، حوالے اور دلائل زبانی یاد ہیں۔ موضوع کے مطابق قرآن پاک کی آیات حوالوں کے ساتھ اور احادیث مبارکہ مستند کتابوں کے حوالہ جات بھی از بر ہوتے ہیں۔ عیسائیت، یہودیت، مجوسیت، ہندو مت اور نجانے کون کون سے مذاہب کے بارے میں مکمل دسترس حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو عالمِ اسلام کے بڑے بڑے تمام ایوارڈز ملنا اس بات کی علامت ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے فن پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور عالمِ اسلام اس سے مکمل استفادہ کر رہا ہے اور وہ مسلمانوں کی امیدوں پر پورے اتر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے چینل نے دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچا رکھا ہے۔ انگلش، عربی، فارسی، ہندی، اردو سمیت تین درجن سے زائد زبانوں میں چل رہا ہے۔ یہ سیٹلائٹ چینل میڈیا انڈسٹری میں ایک زبردست انقلاب ہے۔ اس چینل کے پاس جدید اور مہنگے کیمرے ہیں۔ بہترین تربیت یافتہ عملہ ہے۔ سر دھڑ کی بازی لگانے والے رضا کاروں کی کھیپ ہے۔ اعلیٰ مہارت رکھنے والی کئی ٹیمیں ہیں۔ ان سب کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے پیغام اور اسلام کے خوبصورت چہرے کو دنیا کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرنا ہے۔ بھارت میں لاکھوں کے مجمع میں وہ دلائل سے بتوں کی پوجا غلط ثابت کرتے تھے اس لئے ہندو توا کی آگ میں تپے مودی نے انصاف کا خون کرتے ہوئے انہیں مجرم قرار دیا۔ یہ کہنا زیادتی ہے کہ انہیں بھارت سے نکالا گیا تھا۔ بھارت تو انہیں گرفتار کرنا چاہتا تھا ۔ وہ ہجرت کرکے ملائیشیا چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب مظلوم بھی ہیں اور مہاجر بھی۔ انہوں نے اللہ کے دین کی خاطر گھر بار، کاروبار، تجارت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہجرت کی۔ ہجرتِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔
نجانے کیوں ہمارا نام نہاد دانشور طبقہ، لادین انتہا پسندطبقہ اور سیکولرز و لبرلز کے علمبردار حلقے ڈاکٹر صاحب کی پاکستان آمد پر چیں بہ جبیں اور ناراض ناراض ہیں۔ بلا وجہ ڈاکٹر صاحب پر بہتان تراشی، جھوٹا پروپیگنڈا، زہریلی تنقید اور ذاتیات تک حملے کر رہے ہیں۔ جو لوگ ڈاکٹر صاحب کے رتبے، مرتبے اور شان کو کم کرنے پر تلے ہوئے ہیںیاد رکھیں کہ کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب عالمِ اسلام کے ہیرو ہیں اور رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!