کیا وزارت عظمیٰ کاتاج انتہا پسندقوم پرست رہنما نریندر مودی کے سر سنجے جارہا ہے؟ کیا بھارت قوم پرستی کی سیاست کے دور میں داخل ہونے جا رہا ہے؟ کیا گاندھی خاندان کی موروثی سیاست دم توڑ رہی ہے؟ کیا بھارت اور پڑوسی ممالک کے مابین نئی کشمکش شروع ہونے والی ہے؟ کیا مودی کی جیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات حل طلب ہیں۔عالمی میڈیا میں مودی کی ممکنہ جیت کے بارے میں پیش گوئیاں ہو رہی ہیں۔ مشہور امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے انہیں کٹر ہندو قوم پرست اور مسلمانوں کا مخالف قرار دیا ہے۔برطانوی اخبار گارجین نے ان کی ممکنہ جیت کو خطرناک دوراہے سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نریندر مودی متنازع شخصیت کے مالک ہیں اور ان کی مسلمانوں سے مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اس کا ثبوت ان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کی ضرورت نہیں جو چار چار شادیاں کرتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے آبادی بڑھاتے ہیں۔ اب چونکہ انتخابی معرکہ شروع ہو چکا ہے اس لئے مودی ماضی کے بوجھ کو سر سے اتارنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ گجرات میں ہندو مسلم فسادات ایک ایسا داغ ہے جسے مودی کبھی نہیں دھو پائیں گے تاہم ان کی خوش قسمتی ہے کہ نہرو خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی کے دور دور تک اقتدار میں آنے کے امکانات نہیں ہیں۔ راہول کی پارٹی 2004ء سے برسراقتدار ہے اور ان کی زنبیل میں ووٹرز کو دینے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے اس کے برعکس مودی نے اپنے آپ کو معاشی ترقی کے سرخیل کے طور پر پیش کیا ہے۔انہوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ گجرات ماڈل کو پورے بھارت میں نافذ کریں گے۔ ان کے خیال میں گجرات نے حالیہ سالوں میں جو معاشی ترقی کی ہے اس کی مثال بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکی تھنک ٹینک PEWریسرچ کے سروے کے مطابق بھارت کے 63فیصد لوگ بی جے پی اور ان کی اتحادی جماعتوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ کانگریس اور ان کی اتحادی جماعتوں کی عوام میں پسندیدگی کی شرح محض 19فیصد ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ووٹروں کا رحجان کس طرف ہے۔مودی کے ناقدین انہیں سخت گیر ہونے کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں سمجھتے لیکن عوام کے تیور ناقدین کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔شاید اس سروے کو اور عوام کے تیور دیکھ کر عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ مودی سے متعلق نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
یہ سوال بہرحال بے حد اہم ہے کہ نریندر مودی کیوں ہاٹ فیورٹ ہیں؟ اس کی وجوہات کانگریس اور ان کے اتحادیوں کی خراب گورننس ،مڈل کلاس کے اندر بے چینی اور معاشی بدحالی ہیں لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک ان کی مقبولیت کی وجہ ملک کے سرمایہ داروں کا ان پر اعتماد ہے۔انہیں سرمایہ داروں کا ڈارلنگ بھی کہا جا رہا ہے۔ان کی الیکشن مہم میں ٹاٹا گروپ ،ریلائنس گروپ اور متل گروپ پانی کی طرح روپیہ بہا رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت کی نئی نسل اب روایتی موروثی سیاست سے آجز آچکی ہے اور وہ حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔
مودی کی زندگی میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔انہوں نے زندگی میں بے حد سختیاں جھیلی ہیں ۔ان کے والد وادنگر کے ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش تھے جبکہ ان کی والدہ دفتروں میں صفائی ستھرائی کا کام سرانجام دیتی تھیں۔ مودی دس سال کی عمر میں انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک RSSسے وابستہ ہوئے۔ مودی نے تنظیم کی خاطر اپنی ازدواجی زندگی کو بھی پرے رکھا اور ساری زندگی شادی نہیں کی۔گوکہ RSSکے رواج کے برعکس انہوں نے داڑھی اور مونچھیں رکھ لیں،عموماً تنظیم کے ارکان کلین شیو ،لمبے آستین والے کرتے اور خاکی شلوار پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مودی کے بارے یہ بات عام ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے منفرد اور الگ تصور کرتے ہیں۔
گجرات میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد مودی نے اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے بھرپور مہم شروع کی۔انہوں نے ٹی وی چینلز پر گجرات کو سرمایہ کاروں اور سیاحوں کی جنت کے طور پر پیش کیا۔اس مہم کو انہوں نے ''Vibrant Gujrat''کا نام دیا۔مودی ایک ایسی شخصیت کے طور پر مشہور ہیں جو نہ کو پسند نہیں کرتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ اس پر عمل کرکے ہی رہتے ہیں۔اس کی مثال ٹاٹا گروپ کی وہ پیشکش ہے جسے مودی نے خوش آمدید کہا۔2008ء میں بھارت کی سب سے بڑی آٹو انڈسٹری ٹاٹا گروپ نے گجرات میں پلانٹ لگانے کی خواہش ظاہر کی،مودی نے نہ صرف انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ فوری طور پر زمین کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا۔ اگر گجرات میں اقتصادی ترقی کا جائزہ لیا جائے تو 2001ء سے 2012ء تک یہاں معاشی ترقی کی شرح 10فیصد رہی ،یہ شرح اس عرصے میں بھارت کے تمام صوبوں میں سب سے زیادہ رہی۔ مودی نے گجرات کے دیہی علاقوں میں کسانوں کو بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اسی پالیسی کو لے کر بھارت کے تمام دیہاتوں کو بجلی سے مالا مال کر دیں گے۔ گجرات میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہاں کسی بیوروکریسی کی نہیں چلتی یہاں سے مودی کی چلتی ہے۔ مودی پیچھے مڑنے کے عادی نہیں ہیں۔ ان کی حکومت کو سپریم کورٹ نے 2002ء کے گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دیا مگر مودی اس بات سے منکر ہیں۔ گو کہ ان کے خلاف الزامات لگائے گئے لیکن ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی میں ان کا ٹرائل نہیں ہو سکا۔ مودی کے چاہنے والے انہیں دھن کا پکا سخت محنتی اور اصول کا پابند قرار دیتے ہیں۔ مودی مسلمانوں کو حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اداکار سلمان خان کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ بھارت کے مسلمان ووٹ دینے کے بارے میں منقسم ہیں اور یہ کہنا خلاف عقل ہو گا کہ وہ کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ جامع مسجد دلی کے امام نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بی جے پی کو ہر گز ووٹ نہ دیں بلکہ کانگریس کو ووٹ دیں۔ یہ بات طے ہے کہ مودی کا ماضی مسلمان دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاسی مبصرین کے نزدیک ان کے وزیراعظم بنتے ہی مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین خلیج اور گہری ہو گی۔
مودی کا اپنے پڑوسی ممالک خاص طور پر چین اور پاکستان کے بارے میں جارحانہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ کانگریس کی نرم پالیسی کو نہیں اپنائیں گے۔انہوں نے بارہا الیکشن مہم کے دوران چین اور پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ سردمہری سے پیش آئیں گے لیکن تھوڑے ہی عرصے میں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بھارت کی سخت گیر جماعت بی جے پی امن کے قیام کے لئے موثر ثابت ہوئی ہے۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ جناب اٹل بہاری واجپائی مینار پاکستان میں کھڑے ہو کر ’’پاکستان ایک حقیقت ہے‘‘کا نعرہ بلند کریں گے۔