تالیف: منیر احمد منیر
صفحات: 465، قیمت: 1500 روپے
ناشر: آتش فشاں، 78 ستلج بلاک، علّامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔
جب رنجیت سنگھ نے امرتسر کا’’ دربار صاحب‘‘ بنوایا، تو اُس میں نگینوں کے کام کے لیے کشمیر سے ماہرین کو بلوایا گیا، جو بعدازاں وہیں بس گئے، ڈاکٹر احمد حسن کا اُنہی کشمیری خانوادوں میں سے ایک خاندان سے تعلق ہے۔ دادا، غلام نبی نے 1884ء میں امرتسر میں ڈینٹیسٹ کے طور پر کام شروع کیا، جسے والد نے بھی جاری رکھا۔
تاہم، ڈاکٹر احمد حسن اِس خاندان کے پہلے فرد تھے، جنھوں نے اِس شعبے میں ڈی مونٹ مورینسی ڈینٹل کالج، لاہور سے باقاعدہ سند حاصل کی۔ دورانِ تعلیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے اور تحریکِ پاکستان میں بھی حصّہ لیا۔ زیرِ نظر کتاب اُن ہی ڈاکٹر احمد حسن کے طویل انٹرویو پر مشتمل ہے، جس میں اُنھوں نے امرتسر اور لاہور سے متعلق اپنی یادداشتیں تازہ کی ہیں۔
منیر احمد منیر جیسے کُہنہ مشق صحافی و مصنّف نے اپنی روایتی مہارت سے کام لیتے ہوئے اُنھیں سوالات کے ذریعے کچھ اِس طرح کریدا کہ تاریخی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی روایات کی نسبت سے پورے خطّے میں منفرد مقام کے حامل اِن دونوں شہروں کی بہت سی شخصیات، مقامات اور واقعات سے متعلق تفصیلات قارئین تک پہنچ گئیں، جو نہ صرف یہ کہ دل چسپ ہیں، بلکہ اپنے وقیع مواد کے سبب محقّقین کے لیے بھی تحقیق کی نئی راہیں وا کرتی ہیں۔ کتاب کے ابتدائی124 صفحات پر منیر احمد منیر کا پیش لفظ ہے، جس میں اُنھوں نے اِن دونوں شہروں سے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں، جب کہ126 نادر و نایاب تصاویر بھی کتاب کا حصّہ ہیں۔