مصنّف: عامر خاکوانی
صفحات: 303، قیمت: 1500 روپے
ناشر: بُک کارنر، جہلم۔
عامر خاکوانی تقریباً تین دہائیوں سے صحافت میں موجود ہیں اور اِن دنوں بھی ایک اخبار کے میگزین ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ایک عرصے سے کالم بھی لکھ رہے ہیں اور اِس حیثیت سے بھی ایک نمایاں و جداگانہ مقام کے حامل ہیں، جب کہ کچھ دنوں سے ویلاگنگ کا بھی آغاز کیا ہے۔
ان کا ایک تعارف سوشل میڈیا بلاگر کے طور پر بھی ہے، خاص طور پر فیس بُک کے لیے لکھی گئی اُن کی تحریریں وسیع حلقے میں زیرِ بحث رہتی ہیں۔ وہ ایک صاحبِ اسلوب لکھاری ہیں۔ اِس ضمن میں عرفان جاوید کا کہنا ہے کہ’’مدّلل، متوازن اور متین…یہ تین میم، الفاظ عامر ہاشم خاکوانی کی تحریروں کی درست عکّاسی کرتے ہیں۔
ایک تہذیبی شائستگی اور ہم دردی کی مہک رچی بَسی ہے اُن کی صندلیں تحریروں میں۔ سو، اِن حکیمانہ تحریروں کا خاصا اُن کی نکتہ خیز حکایات و واقعات، دِل چسپ انداز اور شستہ، رواں نثر ہے۔‘‘ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اِس بات کو یوں آگے بڑھایا ہے کہ’’ اگر قابلِ مطالعہ ہونے کے لیے صاحبِ مطالعہ ہونا اوّلین شرط ہے، تو عامر ہاشم خاکوانی نے اِس شرط کا پاس ایمان کے درجے میں کیا ہے۔‘‘
خود عامر خاکوانی کا اپنی تحریروں سے متعلق کہنا ہے کہ’’مَیں نے ہمیشہ وہ لکھا، جو میرے دل کی آواز اور ذہن کی سوچ تھی۔مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری کسی تحریر سے میرے قارئین کا ایک حلقہ یا گروپ ناراض ہوگیا۔مجھے لگتا ہے کہ مَیں اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کی سوچ، زندگی، خیالات بدلنے کی ایک کوشش کر رہا ہوں۔‘‘اور اُن کے مستقل قارئین اِن تمام باتوں کے گواہ ہیں۔ اُن کی تحریروں کی پذیرائی کتابوں کی صُورت بھی ہوئی کہ اُن کے مضامین پر مشتمل’’زنگار‘‘،’’زنگار نامہ‘‘ اور’’وازوان‘‘ ہاتھوں ہاتھ لی گئیں اور’’ خیال سرائے‘‘ اِسی سلسلے کی چوتھی کتاب ہے۔
یہ کتاب55 مضامین پر مشتمل ہے، جنہیں زندگی کے سبق، شخصیات، سیاسی تاریخ/اَن کہی کہانیاں، سفرنامہ/طالبان کا افغانستان، کتابیں/مطالعہ، معلومات افزا، تصوّف، نقطۂ نظر، شگفتہ شگفتہ/ عربی ادب اور حرفِ لذیذ/روایتی کھانے/ ذائقے کے عنوانات کے تحت دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اِس اجمالی فہرست ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے موضوعات میں کس قدر تنوّع اور تازہ پن ہے۔
اِن مضامین میں بہت سے غیر مطبوعہ ہیں، گویا، قارئین پہلی بار ان کا مطالعہ کریں گے۔ کچھ عرصے سے اخباری کالمز یا مضامین کی کتابی صُورت میں اشاعت کا سلسلہ خاصا تیز ہوا ہے، مگر اِن کتب کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ پر لکھے گئے روایتی کالمز سے بَھری ہوتی ہیں، جن کی عُمر زیادہ نہیں ہوتی، اِس لیے ایسی کتب قارئین کو متاثر نہیں کر پاتیں۔
تاہم، عامر خاکوانی کی یہ کتاب بھی، پچھلی تینوں کتب کی طرح، بَھرتی کے مواد سے پاک ہے۔ اِس میں صرف وہی تحریریں شامل ہیں، جو پڑھنے والوں میں مثبت سوچ اور اُمید کی نئی توانائی بَھر سکیں۔