’’پیڑاں نوں میں سینے لاواں تے میں ہسدی جاواں، دُھپّاں دے نال لَڑ لَڑ کے میں لَبّیاں اَپنیاں چھاواں، دُکھ وی اپنے سُکھ وی اپنے میں تے بس اے جاناں، سب نوں سمجھ کے کی کرناں اے دل نوں اے سمجھاواں، تو جھوم جھوم جھوم جھوم...‘‘ ترجمے کی ضرورت نہیں، سادہ سی پنجابی میں یہ گانا نصیبو لعل اور عابدہ پروین نے گایا ہے جس کا مطلب ہے کہ زندگی میں دکھ سکھ، اونچ نیچ آتے رہتے ہیں، اِن کی وجہ سے دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے، اور جھوم جھوم کے زندگی گزارنی چاہیے۔ صبح شیو کرنے کے بعد، سوٹ پہن کر، ٹائی کی گرہ لگاتے ہوئے جب اِس گانے کے بول کان میں پڑتے ہیں تو لطف آجاتا ہے، مگر یہ لطف اسی صورت میں آ سکتا ہے اگر یہ پریشانی نہ ہو کہ آج دو وقت کی روٹی نصیب ہوگی یا نہیں۔ جس بندے کا دن اِس سوچ کے ساتھ شروع ہوتا ہو کہ نہ جانے اگلے ماہ اُس کی نوکری رہتی ہے یا نہیں، تو وہ من میں چاہے کتنا ہی صوفی کیوں نہ ہو، اِس گانے پر نہیں جھوم نہیں سکتا اِلّا یہ کہ اُس نے نشہ کیا ہو۔ آج موضوع صرف اتنا ہے کہ کیا واقعی جھوم جھوم کے زندگی گزاری جا سکتی ہے؟
ہر قسم کے دکھ سکھ سے ماورا ہو کے زندگی اُسی صورت میں گزاری جا سکتی ہے اگر بندہ سارا دن اپنے بستر پر لیٹ کر چھت کو گھورتا رہے، لیکن یہ بھی نا ممکن ہے کیونکہ بجلی کا بِل اسے بہرحال بھرنا پڑے گا اور اِس کیلئے پیسے چاہیے ہوں گے اور پیسے کمانے کیلئے اسے گھر سے باہر نکلنا ہو گا اور جونہی وہ گھر سے باہر قدم رکھے گا، اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا اسے قانون، قاعدے اور ضابطے میں رہ کر کام کرنا ہے یا کسی آزاد روح کی طرح ہر پل وارفتگی کے عالم میں گزارنا ہے۔ اِس سوال کا جواب مشہور فلسفی سورن کیرکیگارڈ نے اپنی کتاب Either/Or میں دیا ہے۔ کتاب کا نام ہی اِس قدر عمدہ ہے کہ بندہ داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتاب میں دو قسم کے طرزِ زندگی کا موازنہ کیا گیا ہے جنہیں کیرکیگارڈ Aesthetical اور Ethical کہتا ہے، اردو میں بولیں تو جمالیاتی اور اخلاقی۔ اِس کام کیلئےکیرکیگارڈ نے دو تصوراتی کردار تخلیق کیے۔ جمالیاتی زندگی کے دلدادہ شخص کے قلم سے کیرکیگارڈ نے ایک مضمون تحریر کروایا جس میں اُس کردار نے شاعرانہ اور دلآویز پیرائے میں اپنا مقدمہ پیش کیا، حُسن کے پیمانے بتائے، موسیقی کی دلکشی بیان کی اور عورتوں کو لبھانے کے طریقوں پر بات کی جبکہ دوسرے کردار کے قلم سے کیرکیگارڈ نے دو طویل خطوط لکھوائے جن کا انداز تحریر نپا تلا تھا اور اُن میں اخلاقی ذمہ داریوں اور قانون قاعدے کی پابندی کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ کیرکیگارڈ کے مطابق انسان کے اندر متواتر ایک جنگ جاری رہتی ہے کہ اِن دونوں طرزِ زندگی میں سے کس کا انتخاب کیا جائے، دِقّت یہ ہے کہ دونوں کو کسی ایک فلسفے میں ضم کرکے یوں پیش نہیں کیا جا سکتا کہ انسان اُسے کسی کیپسول کی طرح نگل کر مطمئن ہو جائے۔ مثلاً جو کردار جمالیاتی فکر کی نمائندگی کرتا ہے وہ ایک گمنام نوجوان ہے جو نتائج کی پروا کیے بغیر صرف ذاتی خوشی، طمع و لالچ اور اپنی تفریحات کی تکمیل کیلئے زندگی گزار رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب، اخلاقی زندگی کا داعی شخص ایک جج ہے جو اپنے ذاتی اور سماجی فرائض کو پورا کرنے کیلئے سخت محنت کا حامی ہے، اُس کی زندگی قانون قاعدے کے تابع ہے اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں اگر اسے کوئی قربانی بھی دینا پڑتی ہے تو وہ دریغ نہیں کرتا، اُس کی نظر میں جمالیاتی طرزِ زندگی اخلاقی دیوالیہ پن سے عبارت ہے جس کا نتیجہ بالآخر شدید مایوسی اور ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب کیرکیگارڈ اپنے فرضی کرداروں کے ذریعے اِن دونوں نظریات کا موازنہ کرتا ہے تو اُس کا مقصد کسی ایک طرزِ زندگی کے حق میں دلائل پیش کر کے اسے درست قرار دینا نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر یہ بتانا چاہتا ہے کہ اُن کی زندگیوں میں تناؤ کی وجہ اصل میں یہ اندرونی کشمکش ہے جو ختم نہیں ہو پاتی۔
سورن کیرکیگارڈ نے اپنی کتاب میں ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ کیا انسان اپنی زندگی میں اضطراب سے چھٹکارا پا سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کیرکیگارڈ یوں دیتا ہے کہ یہ دراصل غیر یقینی مستقبل ہے جس کی وجہ سے ہم ذہنی تناؤ اور اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، اور اِس کی بنیاد انسان کو میسر وہ آزادی ہے جس کے تحت وہ اپنی زندگی گزارنے کے فیصلے کرتا ہے، انسان کو چونکہ اُن فیصلوں کے ممکنہ نتائج کا علم نہیں ہوتا اِس لیے تناؤ کی کیفیت جنم لیتی ہے جس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں رہتا۔ یہ سوالات انسان کے وجود سے متعلق ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کس طرح رہنا چاہیے اور اِن کے حتمی جوابات دستیاب نہیں ہیں، اِس لیےیہ لاعلمی اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ ہم یقینی طور نہیں جان سکتے کہ آیا ہم نے زندگی میں درست راستے کا انتخاب کیا یا نہیں لیکن بہرحال ہم یہ انتخاب کرنے میں آزاد ہیں، اِس لئے یہ آزادی ایک طرح سے تناؤ اور اضطراب کا باعث بنتی ہے یا یوں سمجھیں کہ آزادی کی قیمت ہمیں اضطراب کی شکل میں چکانا پڑتی ہے۔ تاہم کیرکیگارڈ کہتا ہے کہ ایک بار جب ہم اِس حقیقت کو قبول کر لیں گے تو پھر ہم زندگی کی اِس غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی تیار رہیں گے اور اپنی توانائیوں کو درست سمت میں موڑ کر اِس اضطراب کو مثبت طرزِ زندگی کیلئے استعمال کر سکیں گے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جمالیاتی طرزِ زندگی کا دلدادہ محض جذبات اور سفلی خواہشات کا پیچھا کرکے اپنے اضطراب سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ یہ فرار فقط زندگی کے ادھورے پن پر مُنتَج ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب اخلاقی زندگی کا داعی شخص اِس اضطراب کا یوں مقابلہ کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اخلاقی قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنا لیتا ہے لیکن یہ پابندیاں اسے ایک روبوٹ بنا دیتی ہیں جو بغیر کسی سوال جواب کے محض احکامات پر عمل درآمد کا عادی ہو، اُس میں یہ احساس ہی ناپید ہو جاتا ہے کہ جنہیں وہ سماجی فرائض یا ذمہ داریاں سمجھ رہا ہے آخر اُن کی اتھارٹی کا ماخذ کیا ہے۔ اگر انسان اِس طرح بلا سوچے سمجھے محض پہلے سے جاری شدہ فرمودات کی اندھا دھُند بجاآوری میں لگ جائے تو زندگی کا یہ ’اصولی انتخاب‘ بھی حقیقی مسرت کا باعث نہیں بنتا۔
ویسے تو اِس تمام بحث کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا لیکن اگر ہم نتیجہ نکالنے پر تُل جائیں جیسے کہ کیرکیگارڈ کے بعد آنے والے لکھاریوں کافکا اور کامیو (دونوں میرے پسندیدہ ہیں) نے نکالا تو وہ سوائے اِس کے اور کچھ نہیں نکلے گا کہ زندگی معنویت سے عاری ہے اور اِس میں اضطراب سے چھٹکارا ممکن نہیں، لہٰذا اِس زندگی کو گزارنے کا اِس سے بہتر طریقہ نہیں ہوسکتا کہ ’’توجھوم جھوم جھوم ...‘‘!