پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے عالمی مبلغ سے خاتون نے پوچھا کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتی ہے، جو بظاہر اسلامی ہے۔ صوم و صلوٰۃ سمیت شرعی احکامات کی پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہم جنس پرستی اور سودخوری جیسے ہولناک گناہ بھی عام ہیں۔ مبلغ بات سمجھ نہیں سکا۔ کہا: سوال میں تضاد ہے۔ اسلامی معاشرے میں یہ کام کیسے ہو سکتے ہیں۔ پھر خاتون سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، جو اُس کے گلے پڑ گیا۔ ماضی میں شاذ ہی کبھی وہ تنازعات کی زد میں آئے ہوں گے۔
سوال پوچھنے والی وہی پوچھ رہی تھی، جو معاشرے میں اس نے دیکھا تھا۔ معزز مبلغ تھیوریٹیکل جواب دے رہا تھا کہ ہم جنس پرستی والا معاشرہ اسلامی کیسے ہو سکتاہے۔ جواب دینے والا جو بات سمجھ نہ سکا، وہ یہ تھی کہ عبادت گزاروں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ ہم کبیرہ گناہوں بشمول ہم جنس پرستی کو معمول بنا کر بھی نیک لوگ ہیں۔
یہ سوال پہلی بار نہیں ہوا۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ تعداد کے حساب سے خانہ کعبہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا دینی اجتماع پاکستان کے شہر لاہور میں ہوتا ہے۔ بیس لاکھ مسلمان اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں۔ اس پر ایک شخص نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ بیس لاکھ ہدایت یافتہ مسلمان جب معاشرے میں واپس جاتے ہیں تو وہاں ان کی برکات نظر کیوں نہیں آتیں۔بیس ہزار لوگ بھی ہدایت یافتہ ہوں تو ایک انقلاب برپا ہو جائے۔پاکستانی معاشرہ مگر سڑتا جا رہا ہے۔معاشرے کا حال یہ ہے کہ ہر طرف مبلغ دندنا رہے ہیں۔ دوسری طرف مگرلین دین کر کے دیکھیں تو کوئی کھرا نہیں۔ خالی ہاتھ لوگ دین کی تبلیغ کرنے نکلتے ہیں اور ارب پتی ہو جاتے ہیں۔
فقط عبادت سے اگر کوئی معاشرہ مذہبی کہلا سکتا تو امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت کرنے والے خوارج سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ عبادت کرنے والا اگر اپنے نفس پہ نگران نہ رہے تو اس میں اپنی پاکیزگی کا خناس بھر جاتاہے۔پاکستان نے تو خود ایک پوری جنگ دہشت گردی کے خلاف لڑی بلکہ تا حال لڑ رہا ہے۔ خوارج اپنی عبادت کے زعم میں قرآن کی شدت پسندانہ تشریح کرتے اور اس پر عمل نہ کرنے والوں کو قتل کر ڈالتے۔ اپنے تئیں وہ سب سے زیادہ نیک تھے۔
اسی ذہنیت کا سب سے بڑا مظاہرہ اسرائیل میں نظر آتا ہے۔ دنیا میں بظاہر اسرائیل سے زیادہ مذہبی ملک اور کوئی نہیں۔ ان کے حلیے دور سے ہی بتا دیتے ہیں کہ وہ کتنے عبادت گزار ہیں۔صرف اپنی نہیں، دوسروں کی الہامی کتب پر بھی اتنی مکمل تحقیق کہ عقل دنگ رہ جائے۔ دنیاوی طور پر سب سے زیادہ پڑھے لکھے، سب سے زیادہ ایجادات کرنے والے۔ ہالی ووڈ ان کی مٹھی میں ہے۔ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پہ ان کا راج ہے۔ عالمی ایڈورٹائزنگ کمپنیز سے لے کر میوزک انڈسٹری اور اخبارات سے لے کر ٹی وی چینلز تک،ہر جگہ یہودیوں کا غلبہ ہے۔ اثر ورسوخ کی حد یہ ہے کہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود امریکی انتخابات پر انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رہنما اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنےکیلئے مرے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب دنیا کے سب سے زیادہ مذہبی اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ جب غزہ پہ حملہ کرتے ہیں تو ایسے ایسے جنگی جرائم سرانجام دیتے ہیں کہ انسانیت کا وجود شرما جائے۔ وہ ہسپتالوں میں گھس کر نومولود بچوں کی آکسیجن بند کر ڈالتے ہیں۔سارے مظالم کر چکنے کے بعد وہ دیوارِ گریہ سے سر لگا کر روتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب دھل گیا۔یہ دینی اور دنیاوی،دونوں علوم کے حساب سے دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن فلسطینیوں کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ نہیں سلجھائیں گے۔ اس وقت عبادت گزار مگر خون آشام یہودیوں کو سو فیصد یقین ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس تک کو انہوں نے نا پسندیدہ قرار دے دیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں شیطان انسان کے اعمال خوشنما بنا کر اسے دکھاتا اور دھوکہ دیتاہے۔
آپ غزہ کی کیا بات کرتے ہیں،اس دنیا میں عمر بھر ساتھ رہنے والے خون کے رشتے دارایک دوسرے کو ایسی ایسی اذیت دیتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔پاکستان تو غزہ نہیں، پھر تحریکِ انصاف کے لیڈر عباد فاروق کے ساتھ کیا ہوا۔ اس دنیا میں میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے ایسی ایسی اذیت تخلیق کرتے ہیں کہ جو بیان سے باہر ہے۔میرے ایک دوست کی بیوی نے ایک بار اسے یہ کہا تھا کہ میں ساری زندگی غربت برداشت کر لوں گی لیکن آنجہانی باپ کی جائیداد میں حصہ نہیں لوں گی تاکہ تم سے انتقام لے سکوں۔شوہر سے انتقام اس نے لے لیا، خود سے اور اولاد سے بھی۔
خاتون نے مبلغ سے جو سوال پوچھا: اس کا اصل جواب یہ ہونا چاہئے تھا کہ جو لوگ ہم جنس پرستی اور سود خوری کرتے ہیں، وہ کوئی نیک نہیں۔ اپنے آپ کو انہوں نے دھوکا دے رکھا ہے۔کتاب میں جو لکھا ہے، اس کی اگر وہ خلاف ورزی کرتے ہیں تو کاہے کے نیک۔ غیر مذہبی لوگ تو گناہ کرتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں۔ نیکوکار وں کے پاس البتہ اپنے کارناموں کی بڑی تاویلیں ہوتی ہیں۔
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں