بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور عوام کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل کیلئے پی ٹی آئی کا جاری احتجاج گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے مارچ کے ڈی چوک پر پہنچنے کی کال پر انتظامیہ نے اسلام آباد آنیوالے تمام راستے سیل کر دیئے جس کے باعث راولپنڈی سے اسلام آباد کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اسلام آباد میں فوج تعینات کر دی گئی‘ سڑکوں پر فوجی دستوں کا گشت شروع ہو گیا‘ انٹرچینج پر کے پی کے سے آئے قافلے روک لئے گئے اور ڈی چوک‘ راولپنڈی مری روڈ‘ سوہان‘ ایکسپریس وے‘ فیض آباد اور دیگر اطراف سے آنیوالے راستوں پر پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں پر شیلنگ کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران بانی پی ٹی آئی کی دوبہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خانم سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ مظاہرین کے پتھرائوسے ایس پی علی رضا سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ برہان انٹرچینج موٹروے پر خیبرپختونخوا کا قافلہ اور پولیس دستے آمنے سامنے آ گئے۔ پولیس نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی تاہم پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں پولیس نے ان پر مزید شیلنگ کی اور مزید4 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ آئی جی پولیس اسلام آباد کے مطابق مختلف مقامات سے گرفتار کئے گئے پی ٹی آئی کارکنوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر گئی ہے۔ انکے بقول کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث راولپنڈی مری روڈ سمیت اہم شاہراہیں 3دن بند رہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کا قافلہ برہان انٹرچینج پر روک لیا گیا۔ پنڈی بھی جڑواں شہر سے کٹ گیا۔جگہ جگہ کنٹینرز رکھ دیئے گئے۔ اسلام آباد کے علاوہ لاہور‘ راولپنڈی‘ اٹک اور سرگودھا میں بھی دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے جبکہ حکومت پنجاب نے ان شہروں میں رینجرز بھی طلب کرلی تھی۔
احتجاج اور جلسہ و جلوس سیاست کا حسن ہے ،لیکن سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف اور کشمکش جتنی بھی بڑھ جائے ملکی مفاد بہر حال سب سے مقدم رکھا جاتا ہے ،لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری احتجاج اور سیاسی کشیدگی ملکی مفاد کو ہی نگل رہی ہے ،ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں نئی سیاسی ،سفارتی اور اقتصادی صف بندی ہورہی ہے ،پاکستان کو عالمی استعماری سازشی قوتوں نے بری طرح سے اندرونی خلفشار میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ ایک جانب دنیا کیلئے چیلنج بن جانے والی عالمی تنظیم ایس سی او کا سربراہی اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے اور اس کی تیاریوں کے سلسلے میں بین الاقوامی نقل و حرکت شروع ہو چکی ہے، عین اس لمحے ملک کا دار الحکومت سیاسی محاصرے کی کیفیت میں ہے اور شرکائے اجلاس کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد محفوظ نہیں ۔حیرت انگیز طو رپر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیاسی شعور سے بے بہرہ دکھائی دیتی ہیں۔ لازم تھا کہ اپوزیشن اپنے احتجاج کو ملکی مفاد کی خاطر کم ازکم اس کانفرنس تک موخر کر دیتی، اسی طرح یہ بھی وقت کا تقاضہ تھا کہ حکومت مصلحت سے کام لیتے ہوئے ایسے حالات سے گریز کرتی اور معاملات کو اس کانفرنس تک موخر کردیا جاتا لیکن دونوں جانب سے عاقبت نا اندیشی نے ملک کی جگ ہنسائی کا بندوبست کر دیا، اب ہمارے دشمنوں کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک تباہی کے جس راستے پر چل پڑا ہے، اس کا واحد حل یہ ہے کہ حالات کو سنبھالا جائے، فریقین ملکی وقار اور ملکی مفاد کی خاطر اپنی انا اور ضد سے اوپر اٹھیں اور اپنی اپنی پوزیشن میں لچک پیدا کرتے ہوئے اصلاح احوال کا درمیانی راستہ نکالیں، ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری صدر پاکستان آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن پر عائدہوتی ہے کہ وہ مصالحت کا کردار ادا کریں، یہ دونوں شخصیات مصالحت کا تجربہ اور صلاحیت رکھتی ہیں، لہٰذا اپنی سیاست کیلئے نہیں ملک کیلئے آگے آئیں فریقین کو ایک میز پر بٹھائیں اور معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ انتہا پسندانہ موقف میں لچک پیدا کرے اور بات چیت سے مسئلہ کو حل کرے، ان کی سیاست اور ملک دونوں کی بقا اسی میں ہے۔
دوسری جانب غزہ کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کیلئے گزشتہ دنوں ایوانِ صدر میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے علاوہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت ملک کی دیگر سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ اس موقع پر صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک سال پہلے اسرائیل نے غزہ اور فلسطین پر جارحیت کی، اسرائیل کے اقدامات دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کے علاوہ لبنان پر بھی جارحیت کر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث 41ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکیں۔ پاکستان سمیت مسلم ممالک کی طرف سے کی جانے والی مذمتوں اور جارحیت روکنے کے مطالبات کے باوجود غاصب صہیونیوں کے ہاتھ نہیں رک رہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو آج نہیں تو کل اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہی ہوں گے کیونکہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہر ریاست کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔