دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی قوم اور انسانیت کی خدمت کی بدولت وہ مقام حاصل کرلیتے ہیں کہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی امر ہوجاتے ہیں۔آج ہم ایک ایسی ہی شخصیت کو یاد کریں گےجس نے اپنی انسان دوستی اور بلا تفریق خدمت کی بدولت اپنی قوم اور دنیا بھر میں وہ مقام حاصل کیا کہ چند روز قبل جب وہ ہستی اس دنیا سے رخصت ہوئی تو کیا ہندو کیا مسلمان، کیا سکھ کیا عیسائی اور پارسی ہر آنکھ ہی اس کی جدائی کے غم میں اشکبار تھی۔ جی قارئین میری مراد بھارت کے معروف صنعتکار اور عظیم خدمت گزاررتن ٹاٹا ہیں جو چند روز قبل ایک بہترین اور کامیاب زندگی گزار کر اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ رتن ٹاٹا، ایک نام جو ہندوستانی صنعت اور انسانیت کی خدمت کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے گا۔ ان کی زندگی صرف ایک کاروباری شخصیت کی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کی کہانی ہے جس نے اپنی کاروباری سوجھ بوجھ، بصیرت، محنت اور انسان دوستی سے پوری دنیاکو متاثر کیا۔ 28 دسمبر 1937ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والے رتن ٹاٹا کا تعلق ایک پارسی خاندان سے تھا جنھوں نے اپنی دادی کے ہاں پرورش پائی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ممبئی میں حاصل کی اور پھر امریکہ چلے گئے جہاں سے انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رتن ٹاٹانے 1961 میں ٹاٹا گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی قیادت میں، گروپ کی آمدنی میں 40گنا اور منافع میں 50گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی بڑی کمپنیوں ٹیٹلی، جیگوار لینڈ روور، اور کورس سمیت متعددبڑی کمپنیاں Acquire کیں، اس کے علاوہ متعدد پراجیکٹس مکمل کیے جس کی وجہ سے ٹاٹا ایک عالمی کاروبار میں تبدیل ہوگیا۔انہوں نے کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کیا اور اپنی صلاحیتوں سے سب کو متاثر کیا۔ 1991ء میں انہیں ٹاٹا سنز کا چیئرمین بنایا گیا۔رتن ٹاٹا کی قیادت میں ٹاٹا گروپ نے نئی بلندیوں کو چھو لیا۔ انہوں نے ٹاٹا موٹرز کو ایک عالمی سطح کی کمپنی بنایا اور نانو کار جیسی انقلاب انگیز گاڑی متعارف کروائی۔ ٹاٹا اسٹیل کو بھی عالمی سطح پر ایک معروف کمپنی بنایا۔ بھارتی قومی فضائی کمپنی ائیر انڈیاکے چیئرمین بھی رہے اور اس کمپنی کو جدت کی نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ وہ نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے حامی تھے اور اسی سوچ نے ٹاٹا گروپ کو ایک جدید کمپنی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر دیکھا جائے تو انکی کامیابی کا راز ان کی بصیرت اور دور اندیشی تھی۔ وہ ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی اور نئے طریقوں کو اپنانے کیلئے تیار رہتے تھے۔ رتن ٹاٹا کا کہنا تھا کہ ایک اچھے لیڈر کو اپنے کاروبار کو قریب سے دیکھنا چاہیے لیکن اسے اس میں اتنا زیادہ الجھنا نہیں چاہیے کہ وہ نئی چیزیں سیکھنے اور نئے خیالات پر عمل کرنے سے گریزاں رہے۔ رتن ٹاٹا اپنی انسانیت دوستی کیلئے بھی مشہور تھے۔ انہوں نےقومی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کیلئے بہت سے کام کیے۔ ٹاٹا ٹرسٹ کے ذریعے انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا۔ انہوں نے ہمیشہ سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور مختلف سماجی کاموں میں حصہ لیا۔ٹاٹا ایک مخلص انسان دوست تھے جو تعلیم، طب اور دیہی ترقی میں ہمیشہ معاون رہے۔ انھوں نے کارنیل یونیورسٹی، ہارورڈ بزنس اسکول، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو سمیت مختلف اداروں کو دل کھول کر عطیہ کیا۔ ٹاٹا ایجوکیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ نے کارنیل یونیورسٹی میں ہندوستان کے انڈر گریجویٹ طلباء کیلئے 28ملین ڈالر کے ٹاٹا اسکالر شپ فنڈ کا اجرا بھی کیا۔ ٹاٹا نے خدمت کرتے ہوئے کبھی کسی مذہب یا رنگ و نسل کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ ٹاٹا خود تو پارسی تھے لیکن انھوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کیلئے یکساں خدمات سرانجام دیں۔ ٹاٹا نے متعدد اعزازات حاصل کیے، انھیں ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم بھوشن دیا گیا۔ انہیں کئی اداروں کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ سے بھی نوازا گیا۔ رتن ٹاٹا ایک انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وہ اپنے ملازمین کو خاندان کا فرد سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھتے تھے۔ اکثر وہ ملازمین کے ساتھ کھانا کھاتے اور ان کی مشکلات سننے کیلئے وقت نکالتے تھے۔ رتن ٹاٹا جانوروں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان کے پاس کئی پالتو جانور تھے اور وہ اکثر ان کی دیکھ بھال خود کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے اپنے بیمار کتے کی وجہ سے ایک اہم ایوارڈ لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ رتن ٹاٹا نے کبھی شادی نہ کی، ہمیشہ کہا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو کام کیلئےوقف کر دیا ہے۔ رتن ٹاٹا ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے کے شوقین رہے۔ وہ مختلف کتابیں پڑھتے تھے اور مختلف لوگوں سے بات کرنا پسند کرتے تھے۔ ایک بار ایک تقریب میں جب ایک بزرگ کھڑا ہو گیا تو رتن ٹاٹا نے فوراً اپنی نشست چھوڑ دی اور کہا، ’’آپ بیٹھے رہیں، میں کھڑا ہو جاؤں گا۔‘‘ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ وہ مہنگی گاڑیوں ، پروٹوکول اور شان و شوکت کے شوقین نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کو اپنی ضروریات سے زیادہ کچھ جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے اتنی دولت ہونے کے باوجود بیرون ملک میں جائیدادیں نہ بنائیں بلکہ دنیا کے متعدد ممالک میں بزنس قائم کیے جن سے ان ممالک سمیت انکے اپنے ملک کو بھی فائدہ پہنچا۔ انھوں نے کبھی دوسرے ملک کی شہریت نہیں لی وہ ہمیشہ اپنے وطن میں رہے، اپنے لوگوں کیلئے کام کیا اور وہیں وفات پائی۔ ہمارے ہاں تو رواج ہی مختلف ہے کہ ذرا سا پیسہ آجائے تو فوراً بیرون ملک سدھار جاتے ہیں اور اپنے ملک کی پروا ہی نہیں رہتی۔ رتن ٹاٹا جیسے لوگ ایک مثال ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اتنے دولت مند ہونے کے باوجود ٹاٹا دنیا بھر میں اپنی عاجزانہ شخصیت اور انسان دوستی کی بدولت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار گارجین سمَیت دنیا بھر کے میڈیا نے رتن ٹاٹا کی موت پر انکی کاروباری اور فلاحی خدمات کو سراہتے ہوئےخصوصی مضامین شائع کئے۔
(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)