• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اونٹوں کو نگلنا اور مچھروں کو چھاننا۔ یہی عمل جاری ہے ۔ بارہ اکتوبر 1999ء کا اقدام اونٹ ہے تو 3نومبر کا مچھر۔ میاں نوازشریف کو ہتھکڑی بارہ اکتوبر کے بعد لگائی گئی اورسید غوث علی شاہ‘ سردار مہتاب‘ میجر عامر ‘ خواجہ آصف یا ان جیسوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بارہ اکتوبر کے جرم کے بعد بنایا گیا تھا۔ مرد کے بچے بن کر اگر بدلہ ہی لینا ہے تو پھر اس جرم میں پرویز مشرف اور ان کے تمام ساتھیوں کو پکڑنا چاہئے۔ اگر زمینی حقائق کا نظرانداز کرکے آتش نمرود میں بے خطر کودنا ہی ہے یا پھر حکمت کی بجائے کتاب اور قانون پر ہی عمل کرنا ہے تو پھر مشرف کا سب سے بڑا جرم کارگل ہے ۔ حسب وعدہ اس کا کمیشن بنا دیجئے ۔ دوسرا بڑا جرم بارہ اکتوبر ہے لیکن تب پرویز مشرف جہاز میں بیٹھے تھے کہ نصف درجن جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے میاں نوازشریف کو گرفتار کرلیا ۔ پہلے ان جنرلوں سے حساب لیا جائے۔ مرے ہوئے سانپ پر لاٹھیاں برسانا کوئی بہادری نہیں۔ اس وقت پرویز مشرف مرے ہوئے سانپ کی مانند ہیں۔ بہادری اور بے غیرتی کا معیار پرویز مشرف کے اقتدار کا ابتدائی ایک سال تھا ۔ مجھ سمیت سب کے اس ایک سال کا ریکارڈ نکال لیجئے ۔ خود بخود پتہ چل جائے گا کہ کون کتنا بہادر اور کون کتنا جمہوریت پسند ہے۔ نوازشریف ‘ جمہوریت اور آئین کی خاطر قربانی تو صدیق الفاروق نے بھی دی تھی اور سب سے زیادہ بدترین سلوک کا نشانہ انہیں بنایا گیا ۔ انہیں صلہ کیا ملا؟
یہی کہ ایک سال گزرنے کے باوجود وزیراعظم صاحب نے ان کو شرف ملاقات تک نہیں بخشا ۔ محترمہ کلثوم نواز کے سر پر چادر رکھنے کی پہلی جرأت تو پیرصابر شاہ نے کی تھی۔ انہیں کیا صلہ ملا؟ یہی کہ کئی ماہ سے وہ میاں نوازشریف سے ٹیلی فون پرگفتگو کے لئے بھی ترس گئے اور پارٹی کا صوبائی صدر ہونے کے باوجود انہیں صدر ممنون حسین کی حلف برداری کی تقریب میں نہیں بلایا جاتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پرویز مشرف سے وزارت کا حلف لینے کی بجائے مرد بنتے اور وزارتوں پر تھوک کر آئین شکن سے حلف لینے سے انکار کردیا جاتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے وقت یہ کہہ کر بغاوت کردی جاتی کہ میں مرد کا بچہ ہوں اور اس کابینہ کا حصہ نہیں بنوں گا جس میں غوث علی شاہ اور پیر صابر شاہ کی بجائے میرے ساتھ تین نومبر کے وقت کے وزیر قانون زاہد حامد بھی وزیر قانون کی حیثیت سے حلف اٹھارہے ہیں۔ میٹھا میٹھا ہپ ‘ کڑوا کڑوا تھو ۔ یہ معاملہ کب تک چلے گا۔ ذات کا معاملہ آئے تو حکمت ‘ مصلحت اور زمینی حقائق لیکن قوم کا مسئلہ آئے تو آئین‘ قانون اور ممولے کو شاہین سے لڑانے پر اصرار۔جب میاں نوازشریف جہاز میں بیٹھ کر جدہ کے سرور پیلس تشریف لے جارہے تھے ‘ تب بھی پرویز مشرف کی حکومت میں یہاں لاکھوں لوگ جیلوں میں پڑے تھے ۔ اس وقت یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ جب تک سب لوگوں کو جیلوں سے نہیں نکالا جاتا ‘ صرف ایک نہیں نکلیں گے ۔ غوث علی شاہ میاں نوازشریف کے ساتھ وفاداری کے جرم میں اسی کیس میں جیل میں سڑتے رہے جس میں میاں نوازشریف کو سزا ہوئی تھی اور جسے معاف کردیا گیا ۔ غوث شاہ کی اس فریاد کو بھی ذہن میں تازہ کرلیجئے جس میں انہوںنے معصومیت کے ساتھ پوچھا تھا کہ میاں صاحب کیااس بڑے جہاز میں میرے لئے ایک سیٹ بھی نہیں تھی ۔ جھگڑا جمہوریت کا ہے اور نہ اصولوں کا۔ اگر ان اصولوں کا جھگڑا ہو تو کوئی بے غیرت ہی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا لیکن مسئلہ چند انائوں کے ٹکرائو کا ہے ۔ جس پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات ہورہی ہے کیا اس پارلیمنٹ کو خود حکمران گھاس ڈالتے ہیں ؟۔ آمریت پر ہزار بار لعنت لیکن خاندانی آمریت پر بھی ہزار لعنت۔ اسٹیبلشمنٹ یا خفیہ ایجنسیوں کے ایجنڈے کے تحت اپنی سیاست اور صحافت کے راستے متعین کرنے والوں پر ہزار لعنت لیکن دوغلے پن اور دہرے معیارات کی سیاست پر دو ہزار بار لعنت ۔
پرویز مشرف کے وکیلوں اور ہمدردوں کو بھی آپے سے باہر نہیں ہوناچاہئے۔ چلوبارہ اکتوبر اور تین نومبر کو تووہ انہیں روک نہیں سکتے تھے لیکن اس ادارے کے وقار کی خاطر انہوں نے انہیں پارٹی بنانے سے کیوں نہیں روکا۔ ہم جیسوں نے تو انہیں سیاست میں آنے سے بھی روکنے کی کوشش کی اور پاکستان واپسی سے بھی منع کرتے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب ادارے کے وقار کے نام پر پرویز مشرف کو بچانے کے لئے سرگرم عمل قوتوں نے تب انہیں پاکستان آنے سے کیوں نہیں روکا؟ یہ سچ ہے کہ فوج اور اس کے اداروں کو اس آزمائش سے کسی اور نے نہیں بلکہ خود جنرل پرویز مشرف نے دوچار کیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم جیسے جمہوریت پسندوں کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود موجودہ حکمرانوں نے آزمائش سے دوچار کردیا ہے ۔ وہ چین اور سعودی عرب سے کچھ اور کہتے رہے ۔ جنرل کیانی کے ساتھ کچھ اور کمٹمنٹ کی تھی ۔ پچھلے ہفتے بھی وکیلوں کے بائیکاٹ اور پرویز مشرف کے پیش ہونے کا سارا ڈرامہ حکومت کی یقین دہانی کے بعد ہی اسٹیج کیا گیا لیکن بعد میں حکومت مکر گئی ۔یہ کہاں کی سیاست ہے کہ خواجہ آصف گروپ کو ایک لائن پر جبکہ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف گروپ کو ایک اور لائن پر لگادیا گیا ہے ۔ یہ سب کو علم ہے کہ عدالت میں پیشی سے بچانے کے لئے جنرل پرویز مشرف کو فوجی اداروں کے لوگوں نے اے ایف آئی سی منتقل کیا ۔ اگر زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے قانون کے مطابق ہی بات کرنی ہے تو پھر وزیردفاع بتائیں کہ قانون اور عدالت کی راہ میں رکاوٹ بننے والے فوجیوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور اگر وہ نہیں کرسکتے تھے تو میڈیا کے سامنے دھمکیاں دینے کی بجائے انہوں نے وزارت سے استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟
گیلانی صاحب کے دور میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وزیراطلاعات بنیں تو ایک محفل میں وزیراعظم گیلانی سے عرض کیا کہ انہیں وزیراطلاعات بنا کر آپ نے ہم صحافیوںکو یہ پیغام دیا کہ تمہاری اوقات یہی ہے ۔ اب خواجہ محمد آصف کو وزیر دفاع بنانا کیا فوج کو ایک خاص پیغام دینا نہیں۔ وہ بھی مکمل نہیں بلکہ اضافی چارج ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے طالبان کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی الطاف حسین صاحب کو دی جائے ۔ زمینی حقائق اور حکمت و تدبر سے صرف نظر کرکے مرد کے بچے بن کر انقلابیت کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر یا بسم اللہ ۔ اصغر خان کیس سے آغاز کرلیجئے۔ کارگل کمیشن بنالیجئے ۔ ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ سامنے لاکر ذمہ داروں کو سزا دے دیجئے ۔ اپنی کابینہ اور پارٹی سے پرویز مشرف کے ساتھیوں کو نکال دیجئے ۔ بارہ اکتوبر 1999ء کے تمام ذمہ داروں اور کرداروں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمات قائم کرلیجئے ۔ جن ججوں نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کرلیجئے ۔ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں جس کے تحت میاں صاحب باہر گئے ۔ پھر تین نومبر کے اقدام کی بنا پر پرویز مشرف اور شریک ملزموں کے خلاف کارروائی کابھی آغاز کرلیجئے ۔ گزشتہ انتخابات میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کو قوم کے سامنے آشکارکرنے کے لئے بھی تحقیقاتی کمیشن بنالیجئے ۔ میموکیس پر خفیہ ایجنسیوں کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگ لے لیجئے ۔ علیٰ ہٰذ القیاس ۔ نہیں تو ترکی کے حکمرانوں کی طرح پہلے بہترین طرز حکمرانی کی مثال قائم کرکے اپنی اخلاقی پوزیشن کو مضبوط کرلیجئے ۔ بلاتاخیر ایک مکمل غیرجانبداراور بااختیار ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن قائم کرکے مذکورہ اور سول ملٹری تعلقات سے متعلق تمام ایشوز اس کے سپرد کردیجئے ۔ آپ تو سعودی عرب چلے جائیں گے ‘ زرداری صاحب کو بچانے ایران آجائے گا ۔ کوئی امریکہ تو کوئی برطانیہ منتقل ہوجائے گا لیکن ہم کیا کریں گے ؟ ہم تو ادھر ہی رہیں گے ۔ اللہ کے واسطے ہمارے حال پر رحم کیجئے۔
تازہ ترین