• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے اسلام آباد میں شروع ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 23واں دو روزہ سربراہی اجلاس اگرچہ خطے اور پورے کرۂ ارض کیلئے اس اعتبار سے اہم ہے کہ جب دنیا کی کل آبادی کے 40فیصد حصے اور 34ٹریلین جی ڈی پی کے حامل ممالک کی قیادتیں یکجا ہوتی ہیں تو وہ یقینی طور ایسی تجاویز، سفارشات اور ورکنگ پیپرز سے لیس ہوکر آتی ہیں جن پر غور و فکر اور اتفاق سے متعلقہ ملکوں ، خطے اور دنیا میں بہتری و ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ پاکستان میں عرصے بعد 15اور 16اکتوبر 2024ء کو منعقد ہونیوالے اس ایونٹ کی میزبانی کئی جہتوں سے اسلام آباد کیلئے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ڈھائی عشرے قبل جب شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی اس میں صرف چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ 2017ء میں اس میں پاکستان اور بھارت مشروط طور پر شامل ہوئے تھے۔ حال ہی میں ایران اور بیلاروس کی شمولیت سے ممبران کی کل تعداد 10ہوگئی ہے جبکہ اجلاس میں مبصر ملک منگولیا کے وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ اس فورم کی تخلیق کے ابتدائی دو بڑے مقاصد تھے (1) علاقائی سطح کے مسائل خود حل کرنا۔ (2) دہشت گردی اور دہشت گردوں کا مل کر خاتمہ کرنا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے تنظیم کے عزائم میں ممبر ملکوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا بھی شامل ہے۔ 11ستمبر 2024ء کو اس باب میں ایس سی او کے اکنامک اور ٹریڈ وزرا کی ایک ابتدائی نشست بھی ہوئی۔ جنوبی ایشیا ممالک کی تنظیم ’’سارک‘‘ کے مقاصد میں بھی علاقائی ملکوں کی معیشت بہتر بنانے کے عزائم شامل تھے تاہم سارک کے بوجوہ متحرک نہ ہوسکنے کے باعث اس باب میں قابل ذکر پیش رفت ممکن نہ ہوسکی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ 23واں سربراہی اجلاس وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بموجب پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے سربراہوں اور دوسرے نمائندوں کی آمد سے پاکستان کو غیر معمولی سفارتی فوائد ہونگے جبکہ پاکستان کے جغرافیائی اور اسٹرٹیجک محل وقوع کے علاقائی ملکوں کیلئے معاشی فوائد اور گوادر بندرگاہ کی اہمیت زیادہ اجاگر ہوگی۔ یہ کانفرنس اگرچہ دو دنوں پر محیط ہے مگر چینی وزیراعظم لی کی چیانگ 14سے17اکتوبر تک پاکستان کے سرکاری دورے پر آرہے ہیں ان کے ساتھ دیگر وزرا اور اعلیٰ حکام بھی ہونگے۔ پاکستان کے سرکاری و عوامی حلقوں میں چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کی آمد پرتپاک و محبت کے اظہار کیساتھ اس دورے سے کئی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ چینی وزیراعظم پاکستان کے صدر آصف زرداری، پارلیمانی رہنمائوں اور اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان کے اس دورے کو پاک چین تعلقات میں نئے باب کی شروعات، دو طرفہ تعاون، اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں وسعت اور سی پیک فیز ٹو پر پُرجوش پیشرفت کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سی پیک منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کئی کوششیں دہشت گردی کی وارداتوں کی صورت میں سامنے آچکی ہیں۔ مگر دونوں ملکوں کے عوام سی پیک منصوبہ کو مشترکہ ترقی و خوشحالی کے ذریعے کےطور پر دیکھتے اور اسکی تکمیل کیلئے پُرعزم ہیں۔ چینی وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سافٹ لانچنگ بھی متوقع ہے جبکہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور آزاد پتن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے متعلق پیشرفت کا امکان ہے۔ گوادر کول پاور پلانٹ سے متعلق بھی حکومت فنانشل کلوز معاہدے کی خواہاں ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ایس او سی سربراہی کانفرنس کے مثبت عزائم اور پاک چین مشترکہ تعاون کے دوررس نتائج کی طرف پیشرفت تیز تر ہوگی اور اس سے پورے خطے کے مفاد اور کرۂ ارض کے امن کے امکانات قوی ہونگے۔

تازہ ترین