• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو مالیاتی وسائل میں خود کفیل بنانے اور قرضوں کی محتاجی سے پائیدار بنیادوں پر نجات پانے کے لیے محصولاتی آمدنی کو مجموعی قومی پیداوار کے کم ازکم 13 فی صد کی سطح تک لانا ضروری ہے جبکہ یہ تناسب فی الوقت9فی صد کے قریب ہے۔ اس کی وجہ کئی شعبوں سے مجموعی قومی پیداوار میں ان کے تناسب کے مطابق ٹیکس کا وصول نہ ہونا ہے۔ ان میں زراعت ، خوردہ فروشی اور مختلف نوعیت کی خدمات سرفہرست ہیں۔آئی ایم ایف نے بھی پاکستان میں جن معاشی اصلاحات کو لازمی قرار دیا ہے ان میں زرعی ٹیکس کی وصولی نمایاں ہے۔ زرعی ٹیکس کی باتیں تو عشروں سے ہورہی ہیں لیکن بااثر طبقوں کا بالعموم زمینداری اور جاگیرداری سے وابستہ ہونا اس کے نفاذ میں رکاوٹ بنارہا ہے تاہم معیشت کی مسلسل زبوں حالی کے باعث اب اس معاملے میں کسی لیت و لعل کی گنجائش باقی نہیں رہی اور ملک کی خاطر سب کو ٹیکس چوری ترک کرنا ہوگی۔ زرعی ٹیکس کی مکمل وصولی ہوسکے تو بعض ماہرین کے مطابق یہ رقم پندرہ سو ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے مگرایک اخباری رپورٹ میں ایف بی آر کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فی الوقت وفاقی حکومت صوبوں کی مدد سے تین سو ارب روپے تک زرعی ٹیکس جمع کرسکتی ہے ۔ایف بی آر نے صوبائی حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ زرعی انکم ٹیکس کا وفاقی شیڈول اپنائیں۔اس مقصد کیلئے صوبائی حکومتوں کو زرعی انکم ٹیکس کے قانون میں ترامیم کرنا ہوںگی تاکہ آئندہ سال سے یکساں نظام کے تحت چھوٹے اور بڑے تمام زمینداروں کی زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کیا جاسکے۔ ٹیکس نیٹ بڑھنے کی صورت میں ٹیکسوں کی شرح میں بھی یقینی طور پر کمی ممکن ہوگی اور تمام شہری اس سے مستفید ہوں گے ۔ بلاشبہ تمام شعبہ ہائے زندگی کو ٹیکس کے دائرے میں لاکر قومی معیشت کو بحران سے نکالنا اب حالات کا ناگزیر تقاضا ہے کیونکہ جو ملک معیشت میں دوسروں کے محتاج ہوتے ہیںان کی قومی خود مختاری بھی باقی نہیں رہتی ۔

تازہ ترین