• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں ان دنوں مصنوعی مہنگائی کا رجحان دیکھا جارہا ہے،سبزی ترکاری اور آٹےکے بعد حالیہ دنوں میں گھی درجہ سوم50روپے اضافے سے 440روپے،درجہ دوم 20روپے اضافے سے 470اور درجہ اول 10روپے اضافے کے بعد 515روپے فی کلوگرام فروخت ہورہا ہے۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور دیگر حکومتی مشینری متحرک نہ ہونے سے منافع خوروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔انڈسٹری مالکان کادعویٰ ہے کہ قیمتوں کےاضافے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔گزشتہ برسوں سے دیکھا جارہاہے کہ روزمرہ ضروریات کی قیمتیںاعتدال میں رکھنے کیلئے اگر کوئی اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں تو ایسا محض رمضان المبارک کے مواقع تک محدود ہوتا ہے،وہ بھی خصوصی کمیٹیاں شہری انتظامیہ کی سرپرستی میں قائم کیے گئے ماڈل بازاروں تک متحرک دکھائی دیتی ہیںجبکہ قیمتیں اس سے پہلے ہی بڑھادی جاتی ہیں۔عمومی طور پر گندم کی بوائی سے لےکر نئی فصل آنے تک آٹے کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں۔اس وقت یہ صورتحال لاحق ہے کہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی بناسپتی گھی کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں ،جس کا اثر مٹھائی،بیکری کے سامان اور ریستورانوں پر پڑے گا۔انتظامی حلقوں کی دوعملی کے تحت حکومت کو سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہےاور یہ دعویٰ کیا جارہا ہےکہ روزمرہ مہنگائی کم ہوکر سنگل اعداد پر آگئی ہے، فی الحقیقت سبزی ترکاری ،گوشت ،آٹے اور گھی کی قیمتوں کا اثر گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ ریستورانوں اور کھانے پینے کے اسٹالوں اور ریڑھیوں پر پڑرہا ہے،جس سے ملازمت پیشہ اور محنت مزدوری کرنے والے افراد کی پریشانیاں بڑھی ہیں۔اس سے پہلے کہ منافع خور وں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع ملے،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوان کےمنصوبے ناکام بناتے ہوئے،ان کے ساتھ قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سےنمٹنے کی سعی کرنی چاہئے۔

تازہ ترین