پاکستان ان دنوں عالمی رہنماؤں کی آمدورفت کا ایک بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ کئی عالمی وفود پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور بہت سارے رہنما پاکستان تشریف لانے کے منتظر ہیں۔ گزشتہ دنوں سعودی سرمایہ کاروں کے ایک بڑے وفد کی آمد سے بھی پاکستان کو نفسیاتی حوصلہ ملا۔ تاہم اس سال کا سب سے بڑا اور اہم اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کی میٹنگ ہے جسکی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کیلئے عالمی ایونٹ کے انعقاد کی میزبانی ایک بڑا اعزاز ہوتا ہے یہ عالمی اجلاس ایک دن میں کسی ملک کو حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ اور تمام سیکورٹی ادارے کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ عالمی رہنماؤں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ پاکستان اس طرح کے عالمی اجلاس کے انعقاد کیلئے ایک محفوظ ملک ہے۔ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یہ میرے لئے اطمینان کی بات ہے کہ آج اتنا بڑا ایونٹ پاکستان میں منعقد ہونے کو ہے۔ ایس سی او کا سربراہی اجلاس سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے جس میں تمام حکومتی سربراہان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ 14 اور 15 اکتوبر کو اس تنظیم کا دو روزہ سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین، روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، ازبکستان، بھارت، ایران اور بیلاروس کے اعلیٰ سطحی وفود شرکت کریں گے۔ اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ویٹو پاور رکھنے والی دو بڑی معاشی اور سیاسی قوتوں کے وزیراعظم اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کیلئے اسلام آباد میں موجود ہونگے جبکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی نمائندگی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کرینگے۔ اس کانفرنس کے مستقل اراکین کے علاوہ افغانستان اور منگولیا بطور مبصر شرکت کرینگے۔ ایس سی او کے وزرائے منصوبہ بندی کی میٹنگ پاکستان میں ہی ہو چکی ہے جس میں سربراہی اجلاس کے خد و خال طے کیے جا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایس سی او کی تشکیل کے پس منظر میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ خطے میں بڑھتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ کے سامنے بند باندھا جا سکے۔ یہ اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب رہی یہ کہنا تو قبل از وقت ہے تاہم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں یہ تنظیم ایک مضبوط بلاک کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ چین اور روس نے 2001ء میں جب یہ تنظیم قائم کی تھی تو اس وقت عوامی جمہوریہ چین کیساتھ ساتھ قازقستان،کرغستان، ازبکستان اور تاجکستان اسکے رکن تھے۔ 2017ء میں پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم میں شامل کیا گیا جبکہ ایران 2023 ء میں اور بیلاروس جولائی 2024 ء میں اس تنظیم کا رکن بنا اسکے علاوہ تین ممالک کو مبصر کا درجہ دیا گیا۔ اسکی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے رکن ممالک دنیا کے تقریباً 80فیصد رقبے پر مشتمل ہیں۔2023 ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 40فیصد آبادی ایس سی او ممالک پر مشتمل ہے جبکہ ان تمام ممالک کی مشترکہ جی ڈی پی دنیا کی کل جی ڈی پی کا تقریبا 32 فیصد ہے۔ اہمیت کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اور موثر تنظیم کہا جائے تو بے جانا ہوگا۔ توقع ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے رکن ممالک کے مابین مضبوط معاشی شراکت داری قائم کرنے کے امکانات مزید روشن ہونگے اور رکن ممالک کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعاون مزید گہرا ہو سکے گا۔ پاکستان کی مخصوص معاشی صورتحال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ایس سی او کی ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن پاکستان کی عالمی تجارتی تنہائی دور کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس سربراہی اجلاس کے دوران رکن ممالک کے مابین علاقائی تعاون کے فروغ کے علاوہ فوڈ سیکورٹی، موسمیاتی تبدیلی،انسداد دہشت گردی کے حوالے سے باہمی تعاون کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ایس سی او کے رکن ممالک ایک دوسرے کیلئے مشترکہ سرحدی آپریشنز،سائبر تعاون، ڈیجیٹل رابطے اور غربت کے خاتمے کیلئے بھی ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور فوڈ سیکورٹی جیسے چیلنجز سے نپٹنا اکیلے پاکستان کی بس کی بات نہیں۔ اگر یہ تنظیم اقوام متحدہ جیسے روایتی اعلامیوں سے باہر نکل کر عملی اقدامات کی طرف بڑھی تو نہ صرف پاکستان کے حالات تبدیل ہونگے بلکہ خطے میں بھی ایک بڑا معاشی انقلاب رونما ہو سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم پاکستان کیلئے علاقائی سیکورٹی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے تجارت کے راستے کھل سکتے ہیں اور عالمی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے، سی پیک اور اس نوعیت کے دیگر منصوبوں کے ذریعے تمام ممالک کے مابین زمینی رابطے استوار ہو سکتے ہیں، پاکستان جو کہ توانائی کے بحران سے دوچار ہے، ان ممالک سے آسان شرائط پر اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ آئی پی پیز جیسے جن کو بھی بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے، ایس سی او کے ذریعے پاکستان کو رکن ممالک کے ساتھ ثقافتی تعلیمی اور سائنسی تعلیم کے مواقع بھی حاصل ہو سکتے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے عالمی سفارتی تنہائی دور ہو سکتی ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر یہ ممالک اگر ایک مشترکہ آواز اٹھائیں تو دنیا مجبور ہو جائیگی کہ وہ انکی آواز پر کان دھرے۔ مستقبل میں توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین مشترکہ تنازعات کے حل کیلئے کوئی راہ نکل آئے۔ کیونکہ اگر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان تنازعات سے نکل کر سائنس ٹیکنالوجی اور علم کی طرف رجحانات میں اضافہ کرنا ہو گا۔