• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم لی چیانگ کے دورے کی شکل میں کسی چینی وزیراعظم کی گیارہ سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستان آمد اور اس موقع پر متعدد نئے منصوبوں کیلئے دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدوں اور مفاہمت ناموں کا طے پانا نیز چینی صنعت کی پاکستان میں ری لوکیشن اور چینی سرمایہ کاری بڑھانے پر بات چیت‘ فی الحقیقت چینی تعاون سے پاکستان کی ترقی کے ایک نئے اور سرگرم و پرُجوش دور کا آغاز ہے۔ اس پیش رفت سے واضح ہے کہ پاکستان میں 2018ء کے وسط سے شروع ہونے والے دور میں چینی قیادت جن اسباب و خدشات کی بنا پر سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے سمیت تمام ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھانے کے معاملے میں سردمہری اور عدم دلچسپی کا شکار نظر آتی تھی، وہ اب پوری طرح دور ہوچکے ہیں اور پاک چین راہداری معاہدے کی صورت میں آج سے دس سال پہلے باہمی تعاون سے پورے خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کی شکل میں وہ نئے ولولوں کے ساتھ بحال ہوگیا ہے۔وزیر اعظم لی چیانگ کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزراء اور اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان آمد سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ان کے چارروزہ دورے کے پہلے ہی دن ایوان وزیر اعظم میں استقبالیہ تقریب کے بعد سکیورٹی‘ تعلیم‘ زراعت‘ مواصلات‘ صنعت وتجارت‘ انسانی وسائل کی ترقی‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور کرنسی کے تبادلے سمیت متعدد شعبوں میں13 مفاہمت کی یاد داشتوں اور معاہدوں پر دستخطوں کی شکل میں ہوا۔وزیر اعظم لی چیانگ نے گوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح بھی کیا جو بلاشبہ پاک چین دوستی کا ایک عظیم اور تاریخ ساز سنگ میل اور دونوں ملکوں کے ماہرین اور کارکنوں کی شب و روز کی محنتوں کا ثمر ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس تقریب میں بجاطور پر گوادر کو نہ صرف علاقائی ترقی کا محور بلکہ پاکستان کیلئے گیم چینجر کی حیثیت کا حامل قرار دیاجبکہ لی چیانگ نے پاکستان کے لوگوں کی خوشحالی کو چینی قیادت کی دلی خواہش قرار دیتے ہوئے اس یقین دہانی کا اعادہ کیا کہ چین پاکستان کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ تاہم پاکستان میں چینی ماہرین اور کارکنوں کی حفاظت کا ہر خامی اور نقص سے پاک بندوبست ناگزیر ہے جبکہ سوئے اتفاق سے اس حوالے سے اب تک کئی نہایت المناک واقعات پیش آچکے ہیں۔حال ہی میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب خود کش حملے نے پچھلے زخموں کو ازسرنو تازہ کردیا ہے ۔ یہ چینی قیادت کی وسعت قلبی ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش داخلی اور بیرونی چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سانحات کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعاون کے راستے پر پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ گامزن ہے لیکن حکومت پاکستان اور عسکری اداروں کو ایسے واقعات کی مکمل روک تھام کی خاطر ہر ممکن تدبیر بہرکیف کرنی چاہیے جس کے پختہ عزم کا اظہار وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے پر لوگ تیار کیوں ہوتے ہیں ۔ انہیں گمراہ کرکے اس راستے پر لگانے والوں کی کامیابی کے اسباب کیا ہیں اور پھر ان کا ازالہ کرکے وہ شکایات دور کی جانی چاہئیں جو نوجوانوں کو اپنی جانوں کی قربانی دے کر یا انہیں داؤ پر لگاکر ریاست کے خلاف کارروائیوں پر آمادہ کرتے ہیں۔ناراض عناصر کے ساتھ بات چیت کے دروازے مکمل طور پر بند کرلینے کے بجائے انہیں کھلا رکھنا اور اس کے نتیجے میں جو شکایات جائز نظر آئیں ان کا تدارک کرنا ہی پائیدار امن اور استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ترقی کے ثمرات کو بالائی طبقوں کی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رکھ کر عام آدمی تک منتقل کیا جائے اور اس کی زندگی آسان بنائی جائے۔

تازہ ترین