سندھ ہائی کورٹ نے پولیس رولز میں 3 ماہ کے اندر اصلاحات کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیس میں ایڈیشنل ایس ایچ او کی پیشی کے معاملے کی سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت ڈی آئی جی ایسٹ اظفر میہسر و دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل ایس ایچ او کی پوسٹ پولیس رولز میں موجود ہے؟
سرکاری وکیل نے اس سوال کے جواب میں عدالت کو بتایا کہ پولیس رولز میں ایڈیشنل ایس ایچ او کا کوئی عہدہ نہیں ہے، اعلیٰ پولیس افسران کسی بھی قابل افسر کو اپنے طور پر تعینات کرتے ہیں۔
ایس ایس پی ایسٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایس ایچ او رات دیر تک اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ کسی بھی افسر کی جگہ کوئی بھی ماتحت ملازم پیش ہو سکتا ہے، ہمیں کسی کے عہدے سے غرض نہیں، افسر کی طرف سے کوئی بھی جواب جمع کروا سکتا ہے مگر جو بھی پولیس اہلکار عدالت میں پیش ہو وہ اپنا عہدہ صحیح بتائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ضرورت ہے تو رولز کیوں نہیں بنائے جاتے؟ محکمۂ داخلہ کو 5 برس پہلے بھی پولیس رولز میں اصلاحات کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمۂ داخلہ ابھی تک کچھ نہیں کر سکا ہے، اگر محکمۂ داخلہ پولیس کو اختیارات دے تو وہ بہتر کام کر سکتی ہے، سیکریٹری داخلہ آج ہیں کل نہیں، پوری پولیس ان کے ماتحت کی ہوئی ہے، آپ نہ خود کسی سپاہی کی عزت کرواتے ہیں نہ معاشرہ عزت کرتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ پولیس میں بہت قابل لوگ موجود ہیں، ان کو اختیارات دیں، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اصلاحات کے بعد وہاں کی پولیس سندھ سے بہت بہتر پرفارم کر رہی ہے۔
عدالت نے 3 ماہ میں پولیس رولز میں اصلاحات کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 2 ماہ کے اندر سندھ پولیس اپنی سفارشات تیار کر کے محکمۂ داخلہ کو فراہم کرے اور محکمۂ داخلہ پولیس سفارشات کا جائزہ لے اگر کچھ تبدیلی کی ضرورت ہو تو پولیس کو آگاہ کرے۔