• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ بہت دفعہ گیا، ڈیڑھ دو برس امریکہ میں قیام بھی کیا لیکن جو مزا یُو ایس آئی ایس کے اس تعلیمی گروپ کا رکن بننے میں آیا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ یہ دورہ چھ سات ملکوں کے ارکان پر مشتمل تھا۔ نہ صرف یہ کہ مختلف ملکوں کے ان دوستوں کے ساتھ چھ ہفتے گزارنے کا تجربہ ’’یونیک‘‘ تھا بلکہ ہمیں امریکہ کی اتنی ریاستوں کے شہروں میں لے جایا گیا کہ کوئی معروف شہر شاید ہی بچا ہو۔میرا یہ احساس ابھی تک برقرار ہے کہ امریکہ کے کسی مقامی شہری کو بھی شاید یہ سب دیکھنا نصیب نہ ہوا ہو۔ مگر اس دورے کے دوران پروفیشنلز کے جو لیکچر سننا پڑے ، جہاں ان سے امریکہ کے تعلیمی نظام سے بہت آگاہی ہوئی وہاں تھکاوٹ نے بھی مت مار دی\۔مگر میں آج کے کالم میں اپنے ان ’’کلاس فیلوز‘‘کی چند جھلکیاں دکھائوں گا جو تھکن اتارنے میں مدد دیتی تھیں۔ اب آپ ان سے باری باری ملیں۔ جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں بتایا کہ ہمارا گروپ مختلف ملکوں کے افراد پر مشتمل تھا ان میں یونانی قبرص کے کیریانی کا کوئی جواب نہیں تھا اس نے ہمارے اس سفر کو دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ بہت دلچسپ شخص تھا۔ مجھے ’’قیس می‘‘ کہتا تھا اس کی انگریزی بہت کمزور تھی ایک دن مجھے کہنےلگا ’’قیس می‘‘ میں جب صبح اٹھتا ہوں تو تازہ دم ہونے کی وجہ سے میری انگریزی قدرے بہتر ہوتی ہے، دوپہر تک اس انگریزی میں لاغری پیدا ہوجاتی ہے اور شام کو یہ بالکل دم توڑ دیتی ہے، اور وہ صحیح کہتا تھا چنانچہ شام کے بعد میں اس کے ترجمان کے فرائض انجام دیتا تھا۔

فلپائن کا ماناروس ہر وقت کسی نہ کسی ’’پسوڑی‘‘ میں ہوتا تھا، چنانچہ جب تعلیمی سیشن میں شرکت کیلئے روانگی کی خاطر سب لوگ وین میں بیٹھ چکے ہوتے، وہ سب سے آخر میں گھبرایا گھبرایا سا نمودار ہوتا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی کوئی چیز اور برابر سے گزرتے ہوئے کسی شخص کو گراتا ہوا وین میں داخل ہوتا، اس کی ایک ادا جو سب کو بہت پسند تھی وہ یہ تھی کہ سیشن شروع ہوتے ہی وہ کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا اور سو جاتا، بلکہ تھوڑی دیر بعد ہلکے ہلکے خراٹے بھی لینے لگتا۔ ایک بڑی میز جس کے گرد صرف پندرہ بیس لوگ بیٹھے ہوں، ان میں سے ایک ’’برسرعام‘‘ سویا ہوا شخص جتنا نمایاں لگ سکتا تھا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن سونے سے زیادہ ماناروس کا اصل کمال یہ تھا کہ قریباً 45منٹ کی گہری نیند کے بعد وہ نیم غنودگی کے عالم میں اپنا ہاتھ کھڑا کرتا اور کوئی سوال داغ دیتا۔

سوال کرنے والوں میں کولمبیا کے وکٹر کا بھی کوئی جواب نہیں تھا، یہ حلقہ ارباب ذوق کا کوئی پیشہ ور ’’بحثیا‘‘ لگتا تھا، اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی، خاصا پڑھا لکھا آدمی تھا، اس کی شکل ڈاکٹر تحسین فراقی سے بہت ملتی تھی، مگر جب لوگ تین چار لیکچر سن کر تھک کر چور ہوتے ، اس وقت یہ ’’دستِ سوال‘‘ دراز کرتا اور تابڑ توڑ سوال کر کے سیشن کا ایک گھنٹہ مزید طویل کر دیتا، ایک روز کیریانی مجھ سے کہنے لگا ’’وجہ کوئی خاص نہیں، بس مشورہ ہے کہ جب وکٹر سوال کرنے لگے تم اس کے پائوں پر اپنے جوتے کی ایڑی کس کر مارو، تاکہ اس کے سوالوں سے نجات مل جائے!‘‘کویت کا احمد قلندر بہت خوبصورت عادات کا مالک تھا، مگر بہت ’’شائی‘‘ تھا چنانچہ زیادہ لوگوں کے سامنے کھل کر بات نہیں کرسکتا تھا، فینیکس کے میئر مسٹر ڈرنک وائر کی طرف سے دیئے گئے عصرانے میں ہم سب غیر ملکی مندوبین کو مائیک پر آکر اظہار خیال کرنا تھا، چنانچہ ہم قطار میں روسٹرم کے پاس کھڑے تھے اور باری باری مائیک پر جا کر اظہار خیال کرتے تھے، احمد قلندر میرے برابر میں کھڑا تھا اور جوں جوں اس کی باری قریب آرہی تھی اس کے ذہنی تنائو میں اضافہ ہوتا جارہا تھا حتیٰ کہ جب اس کا نام پکارا گیا تو وہ سیدھا منہ کے بل فرش پر گر گیا!

سوڈان کا ڈاکٹر عراقی ہر وقت اداس اداس رہتا تھا، بس اس کے چہرے پر رونق اس وقت آتی تھی، جب اس کے سامنے سفید فام کیرولین کا ذکر ہوتا تھا، اس وقت وہ ٹھنڈی آہ بھرتا اور کہتا تھا ’’کوئی ہے جو میرے جذبات اس تک پہنچائے‘‘۔ اردن کا محمد حلال شاہ انتہائی دلچسپ آدمی تھا، بہت بذلہ سنج، اس کے گیارہ بچے تھے جب کوئی اس سے پوچھتا کہ تم اردن میں کیا کرتے ہو، تو وہ اپنی ننھی منی سفید داڑھی کو کھجلاتے ہوئے کہتا ’’میں نے تمہیں بتایا نا کہ میرے گیارہ بچے ہیں‘‘۔

پیروکا الفانسو تصویریں کھینچنے کا شوقین تھا، بسا اوقات وہ خالی دیوار کی تصویریں بنانے میں مصروف رہتا۔قبرص کا حسین ہر وقت ڈالروں کا حساب کرتا رہتا کہ کتنے ڈالر خرچ ہوگئے اور کتنے مزید ابھی ملنے کی توقع ہے۔ڈنمارک کا پال صحیح معنوں میں ایک نستعلیق آدمی تھا، اس کا مزاج انتہائی شستہ ہوتا تھا۔ ڈنمارک کی بی بی بیٹن اس سے زیادہ نستعلیق تھی، عمر چالیس کے قریب، خوبصوررت دراز قد تیکھے نین نقش، مگر انتہائی ریزرو رہتی تھی، وہ جانتی تھی کہ مردوں سے عزت کس طرح کرائی جاتی ہے، چنانچہ ان چار ہفتوں میں کسی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ اس کے بارے میں کوئی جعلی ’’کلیم‘‘ ہی داخل کرسکے۔

بس یہ وہ لوگ تھے اور یہ وہ فضا تھی جس میں چار ہفتے مختلف النوع مسائل کے باوجود بہت اچھی طرح گزرے اور ہاں کویت کا احمد قلندر اور ڈنمارک کا پال ہوٹل کے ’’سالم‘‘ کمرے میں رہے تھے، ڈنمارک کی بیٹن بھی کسی کے ساتھ کمرہ شیئر نہیں کرتی تھی۔

تازہ ترین