• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اطلاعات کے مطابق26ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کے متفق ہونے کے بعد حکومت اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی پوزیشن پر آگئی ہے۔کم و بیش ایک ماہ سے جاری حکومتی تگ ودو آئینی عدالت کا قیام ترک کرتے ہوئے آئینی بینچ بنائے جانے پرمنتج ہوئی ہے،جس کی منظوری کیلئےپارلیمان میں دوتہائی اکثریت کا ہونا ضروری ہےاور موجودہ حالات میںیہ تعداد جے یو آئی (ف)ہی پورا کرسکتی ہے۔حکومتی اراکین،بالخصوص پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ،جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سےبارہا ملاقات کرچکے ہیںتاہم ان کی طرف سے ہر بار آئینی مسودے پر تحفظات کا اظہار ہوتا رہا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کا دبائو ہے کہ جے یو آئی اس معاملے پر اپوزیشن کا ساتھ دے۔جمعہ کے روز پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما خورشید شاہ کایہ دعویٰ سامنے آیا کہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام اور جوڈیشل کمیشن پر سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے ہوگیا ہے، جس کی روشنی میں اسی روز شام کو وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا،لیکن اسے مسودے کی منظوری کے بغیر باربار ملتوی کرنا پڑا۔اس ضمن میں بلاول بھٹوزرداری کی مولانا فضل الرحمٰن سے رات گئے ایک ہی روز میں دوسری ملاقات ہوئی ،جو بے نتیجہ رہی۔جمعرات اور جمعہ کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے دوبار بات چیت ہوئی،جس میں آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق پایا گیا۔یہ بات وثوق سے کہی جارہی ہے کہ اتوار کے روز آئینی ترمیم کا بل پارلیمان سے منظور ہوجائے گا۔سپریم جوڈیشل کمیشن،آئینی بینچ اور دیگر امورسے متعلق انتہائی اہم معاملات پر سامنے آنے والا اتفاق و اختلاف رائے بظاہربعض تکنیکی پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہےتاہم اصل معاملہ سیاسی مصلحتوں کا ہے ، انھیںعوامی بھلائی،آئینی اور قومی معاملات میں آڑے نہیں آنا چاہئے۔

تازہ ترین