زیادہ سے زیادہ اس آئینی بینچ کے قیام کو ایک ارتقائی پیش رفت کہا جاسکتا ہے ، انقلابی نہیں ! اعدادوشمار پر نظر رکھنے والوں کا یہی خیال ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں اپنی مطلوبہ تعداد نہ رکھنے کے سبب مولانا فضل الرحمٰن کے سیاسی کلاوے میں ایسے آئیں جیسے آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔وہ جو جمہوریت کو پروان چڑھانے والے میثاق جمہوریت والوں کی تمنا تھی کہ آئینی عدالت الگ ہو اور اس کا اپنا ایک وقار ہو بہرحال ایک دفعہ تو وہ خواب تعبیر پانے کے بجائے چکنا چور ہو گیا۔ آصف علی زرداری،میاں نواز شریف اور عمران خان کی اپنی اپنی جگہ مقبول سیاست کو مولانا فضل الرحمٰن کی گھومتی گیند نے کلین بولڈ کردیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کا تناظر پورے طنطنے سے یہ بول اٹھا کہ سبھی جتنے بھی بڑے لیڈر ہوں تاہم مولانا فضل الرحمٰن ایک سیاسی منیجر کے روپ میں جو کمال رکھتے ہیں اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی !مانا کہ جہاں موقع ملا اور جب ملا میثاقِ جمہوریت والے تغافل نہیں کریں گے۔ تاریخ ان میثاقِ جمہوریت والوں کے مقام کو بہرحال شاندار گردانتی ہے۔ وہ یوں کہ ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کی تلوار سے جب آئین لہو لہو ہوا تو موقع ملتے ہی 1997 میں ترمیم سے پارلیمنٹ کا وقار بلند کر دیا گیا ، جمہوریت مخالفوں نے وہ حکومت ہی چلتا کردی ، 2002 میں وجود پانے والی مسلم لیگ قاف نے وردی کے ساتھ صدر بنانے کا راستہ تراش لیا۔ پھر جمہوریت نوازوں نے 2010 میں اٹھارویں ترمیم میں از سرِ نو جمہوریت کو توانا کر دیا ۔ گو میاں صاحب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سمجھنے میں دیر لگی سو نقصان ہوا لیکن جب سمجھ آئی تو کیا خوب آئی۔ چوہدری صاحب تو 18 ویں ترمیم کو آڑے ہاتھوں لینے کے درپے تھے ، گویا شب جو مسجد میں جا پھنسی تھی جمہوریت ، رات کاٹی خدا خدا کر کے۔ پھر بات کہاں کہاں سے کہاں کہاں تک نہ پہنچی تھی، کسی نے 2017 کے پانامہ کو یوں اقامہ کیا کہ قانون اور فلاسفی ہی تہہ و بالا ہوگئی۔ بات یہاں بھی نہ رکی تعریف کے نام پر ایڈیٹنگ ہونے لگے...اللہ بھلا کرے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہ انہوں نےجوڈیشل جاہ و جلال پر پارلیمنٹ کی توقیر کو جلا بخشی۔ حسنِ ظن یہ کہتا ہے کہ اب یہ تسلسل مستقبل میں بھی نظر آئے گا کہ قانون ساز کی اہمیت و افادیت’’سابق‘‘ نہیں ہوتی یہ مختلف شکلوں اور منفرد عقلوں کی کہکشاں بن کر سیاسی افق پر تابندہ اور درخشندہ ملتی رہتی ہے۔ پس منتخب نمائندوں کی اہمیت تقرریاں پانے والے ذہنوں میں دیانتداری سے رہیں تو اقوام جمہوریت کے ثمر سمیٹ سکتی ہیں ۔16 ستمبر 2024 کو نہ ہوسکنے والی 26 ویں ترمیم 18 اکتوبر 2024 کی شام تک آپہنچی ہے، وقت بتائے گا کہ یہ شام کس کیلئے شام غم بننے والی ہے اور کس سیاسی زاویہ کیلئے سہانی شام۔ ان سطور کی اشاعت تک بات کھل کر سامنے آ چکی ہو گی ، اور یہ نوید جڑ پکڑ چکی ہوگی کہ طویل جدو جہد کے بعد عدالتی اصلاحات کو تھوڑا بہت راستہ ملا ہے، جسے ہموار کرنے میں کئی قانون سازوں کی پوری عمریں بیت گئیں۔ پاکستان کے کلچر میں یہ مزاج بن چکا ہے کہ جس ادارے میں بھی کسی کو سربراہی ملتی وہی سربراہ ریاستی سُکھ کو تراشنے کے بجائے اپنی نرگسیت کی آبیاری شروع کر دیتا ہے۔ جب تک عنان اقتدار تھامنے اور کلیدی عہدوں کو سنبھالنے والے اپنے خول سے نکل کر وطن کی زرخیزی کی بڑھوتری میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے تب تک عوام کو حقوق ملنے ممکن نہیں۔ اشرافیہ ہی کے نہیں کچھ حقوق ان عوام کیلئے بھی ہیں جو رعایا بن کر پوتا ہوتے ہوئے انصاف کی تلاش کا آغاز کرتے ہیں مگر دادا بن جانے تک بھی جھولی خالی رہتی ہے۔ سیاسی کیسوں کو ہاتھ ڈالنے اور فیصلے کرنے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کہہ لیجئے یا سیاسی فیصلوں کی ایمرجنسی ،ضرورت عام آدمی کا وقت اور انصاف کھا جاتی ہے ، اس لئے یہ ضروری تھا کہ آئینی عدالت کا قیام عمل میں آ ہی جاتا۔ کچھ سیانے کہتے ہیں کہ’’قانون‘‘کو اسلام آباد میں دو چیف جسٹس بھلے نہیں لگے سو اس نے کہا ہے کہ آئینی عدالت کے الگ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے الگ چیف جسٹس سی پیچیدگی کے در وا ہونے سے بہتر ہے کہ آئینی بینچ ہی پر اکتفا کیا جائے ، جس کا بیڑا مولانا فضل الرحمٰن نے اٹھا رکھا ہے۔ وہ ہستی کسی زمانے میں ایک تحریک اور’’جسٹس‘‘کی ترجمان رہی اور زاویۂ زرداری مخالف۔ کیا وہ ذی وقار ہستی آج پیپلزپارٹی کی مانے اور سنے گی ؟ بقول منیر نیازی:دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر ... دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا‘‘مولانا فضل الرحمٰن جمہوریت کے’’سر‘‘پر شجر سایہ دار ہیں لیکن وہ پیڑ کہ جس کے گرد خزاں اکثر طواف کرتی رہتی ہے سو ڈر لگا رہتا ہے کہ جانے سایہ اور ثمر سنگ سنگ رہیں گے بھی کہ نہیں۔ بہرصورت اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی مجبوریوں اور چیلنجز کے پیش نظر ترامیم کے دریچے اس لئے کھلتے نہیں شرماتے کہ آئین ہمیشہ سے ایک زندہ دستاویز ہے جس پر مثبت بحث تو ضروری ہے تاہم بحث برائے بحث ریاست کیلئے خطرناک ہوتی ہے ۔ سب باتوں اور رکاوٹوں کے باوجود جو چیز 26 ویں آئینی ترمیم میں خوش آئند سامنے آئی وہ یہ کہ پارلیمانی لوگوں کی کمیٹی میں اکثریت ہے جو تقرریوں سے لے کر دیگر معاملات کو دیکھیں گے، ماضی میں یہ بالا دستی منتخب نمائندوں کے بجائے ججز کے پاس زیادہ تھی، اگر یہ سب ماضی میں اتنا ہی اچھا تھا تو پاکستان عدالتی رینکنگ میں عالم میں 140 ویں نمبر ہی پر کیوں تھا؟ چشم بینا کو پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی اس ترمیمی سعی میں اجتماعیت اور ملکی افادیت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کل اگر کوئی سیاسی قوت اس سے بہتر ترمیم کر سکے تو اس کا حق محفوظ ہے اور یہی جمہوریت کا بڑا پن ہے ! قصہ مختصر، بینچ بھی جمہوریت پسندوں کی بڑائی ہے پسپائی نہیں!