پاکستان میں جاری سیاسی، عدالتی و پارلیمانی دھماچوکڑی اور مصنوعی آئینی بحران کی خبروں سے دامن بچا کر میں نے کچھ دن بیرون ملک گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنے دورے کے پہلے مرحلہ میں اٹلی پہنچا۔ میں جب بھی یہاں آیا ہوں اٹلی کے نظام نے ہمیشہ مجھے متاثر کیا ہے لیکن میرے لئے سب سے متاثر کن چیز یہاں پر موجود پاکستانیوں کی کامیابیاں ہیں۔ پاکستان سے غربت اور کسمپرسی کے عالم میں ہجرت کرنیوالے ان باہمت پاکستانیوں نے حیران کن ترقی کی ہے۔ یہاں مقیم پاکستانیوں سے ملکر مایوسی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اٹلی میری ملاقات بھیرہ سے آئے ہوئے مہر محمد امیر سے ہوئی، والدہ بچپن میں فوت ہوگئیں۔ والد کے زیر سایہ بچپن اور لڑکپن گزارا۔ آج سے قریب 23سال قبل پاکستان سے اپنی وراثتی زمین بیچ کر مختلف جنگلوں اور سمندروں سے گزرتے ہوئے’’لاے سپیزیا‘‘ کے ساحل پر اترے۔ اجنبی ملک، بے سرو سامانی کے عالم میں انہوں نے اللہ کے بھروسے پر کام شروع کیا۔ اسی دوران والد بھی چل بسے۔ آج بھی اپنے والدین کا ذکر کرتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ایک محبت کرنیوالے بیٹے کی طرح اپنے والد کو دنیا کا بہترین باپ کہتے ہیں محبت کے سمندر میں جب جوار بھاٹا آتا ہے تو بے ساختہ کہتے ہیں کہ میرے بس میں ہوتا تو اپنے والد کو محبت کا نوبل انعام دیتا۔ وقت گزرتا رہا، کالے بال سفید ہوگئے، بڑھاپے نے جوانی کی جگہ لے لی۔ وطن سے دوری کاٹ لی اور آج وہ یہاں کی مضبوط کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ شہر کی مقامی سیاست پر بھی انکے اثرات ہیں، یہ بغیر تنخواہ کے پاکستان کے سفیر ہیں۔ اور عاجزی کا یہ عالم کہ وہ آج بھی اپنے ہوٹل میں ٹیبل سجانے سے شرماتے نہیں۔ سامان کی خریداری سے لیکر کاؤنٹر پر بیٹھنے تک سارے کام خود کرتے ہیں۔ یہ ایک فیض رساں شخصیت ہیں۔ لوگوں کو اپنے ریسٹورنٹ میں تربیت دیتے ہیں اور انہیں نیا کاروبار بنانے کا ڈھنگ سکھا کر روانہ کرتے ہیں۔ اس وقت اٹلی میں 35 ریسٹورنٹ انکے شاگرد چلا رہے ہیں۔ انکا بیٹا مہر سجاد بھی محنت اور جدوجہد کی عملی تصویر ہے۔ وہ جوانی کے عالم میں ہی محنت کا خوگر بن چکا ہے۔ اور مزید کاروباری کامیابیاں سمیٹنے کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے مصروف عمل ہے۔ یہ باپ بیٹا کامیابی کے باوجود سراپا عجز و انکسار ہیں۔ اٹلی میں قیام کے دوران ایک اور کامیاب پاکستانی راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ملک تنویر صفدر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ Parma میں رہتے ہیں ان کی کامیابیوں کی داستان بھی حیران کر دینے والی ہے۔ انہوں نے تو گویا غربت کے گھپ اندھیرے میں امارت کا چراغ روشن کردیا ہے۔ سیر کے دوران میری ملاقات دو پر عزم نوجوانوں فیصل جو ایک ’’شوفرڈ‘‘ کمپنی کا مالک ہے اور آکاش، کمپیوٹر سائنٹسٹ ہے یہ لندن سے اٹلی میں سیر کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے یہ بھی کامیابی کی ایک مجسم کہانی تھے۔ ایک اور نوجوان محمد اکرام سے ملاقات ہوئی۔ جو سر جھکائے خاموشی سے محنت اور کامیابی کی عملی مثال بنے ہوئے ہیں۔ محمد فاروق عرف صاحب خان بھی ایک کامیاب پاکستانی ہے ۔5 سال کی جدوجہد کے بعد اب ہوٹلنگ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ اسکا مستقبل بھی روشن دکھائی دیتا ہے۔اٹلی کے شہر میلان سے 75کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک شہر جانیوہ میں مغل فیملی کے ایک گھر کو منی پاکستان کہا جا سکتا ہے۔ یہاں پر چکوال سے تعلق رکھنے والے امیر حسین مغل اور امیر افضل مغل 17سال کی عمر میں یہاں آئے۔شپنگ کے کاروبار سے منسلک ہوئے۔اب انکی عمریں 70سال ہونے کو ہیں اور اس کاروبار کے امام سمجھے جاتے ہیں۔1970 ء سے 80تک چکوال کی مقامی سیاست میں فعال رہے۔ اب انکی اولاد اور خاندان کے ایک سو سے زائد افراد مختلف کاروباروں سے منسلک ہیں۔ یوں انکا گھر ایک منی پاکستان ہے۔ان کے ایک کزن فرحت عباس بھی یہاں کی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔یہ بھی شپنگ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انکے دادا صوبیدار میجر فتح محمد نے قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے پرچم لہرایا اور سلامی پیش کی تھی۔اس اعزاز پر انکا پورا خاندان فخر کرتا ہے۔ اس خاندان کی عددی اکثریت کے باعث یہاں کے میئر سے لیکر کونسلر تک سب انکے گھر پر ضرور حاضری دیتے ہیں۔اسی شہر میں شپنگ کے کاروبار سے منسلک ایک وجیہ شخصیت چوہدری یعقوب سے ملاقات ہوئی۔ اگر حکومت دبئی اور کراچی کے درمیان’’فیری سروس ‘‘ شروع کرنا چاہے تو انکی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے اس میدان میں کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے۔ ان کامیاب پاکستانیوں سے ملاقات نے امید کے نئے چراغ روشن کیے۔ یہ کامیاب پاکستانی ہمارے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔مایوسی کے اس دور میں یہ نوجوان ہمارے لیے امید کا چراغ ہیں۔بے یقینی کی کیفیت میں سراپا یقین ہیں۔ یہ چلتا پھرتا پاکستان ہیں اور یہی پاکستان کا حقیقی چہرہ ہیں۔آئندہ مضامین میں کچھ مزید کامیاب پاکستانیوں کا تذکرہ کروں گا تاکہ پاکستانی نوجوانوں میں مایوسی ختم ہو اور آگے بڑھنے کا عزم جواں ہو۔ یہاں ہر کاروباری شخصیت کا واحد شکوہ اسلام آباد میں اٹلی کی ایمبیسی سے ہے کہ قانونی دستاویزات بھیجنے کے باوجود ’’اپائنٹمنٹ‘‘ کیلئے 20 لاکھ روپے مڈل مین کو دینے پڑتے ہیں پھر بھی ویزے کا حصول یقینی نہیں ہوتا۔ پاکستانی وزارت خارجہ اور سمندر پاکستان پاکستانیوں کی وزارت اگر تھوڑی کوشش کرکے ’’اپائنٹمنٹ مافیا‘‘ پر قابو پا لے اور سفارتخانے سے براہ راست معاملات کر کے تو نہ صرف ’’ڈنکی‘‘ کا خاتمہ ہوگابلکہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی پاکستان کے خزانے میں جمع ہوگا۔
اظہار تعزیت:رواں ہفتہ میں میرے استاد گرامی پروفیسر عبد المجید ارشد وصال فرما گئے۔آپ انتہائی دھیمے مزاج کے مالک تھے۔انگلش اور ریاضی کے مضامین مہارت سے پڑھاتے تھے۔اسی طرح میرے ایک اور مخلص ساتھی،میرے والد گرامی کے مرید صادق حاجی سجاد صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔اللہ کریم ان حضرات کی مغفرت فرمائے۔لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔