ہندوستان کا بٹوارا انسانی تاریخ میں ایک منفرد تجربہ ہے۔ زمانہ امن میں شاید ہی کہیں ایسا ہوا ہو کہ چند مہینوں کے اندر ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو مجبوراً نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس افراتفری میں مرنے والوں اور بچھڑنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے دس لاکھ تک رہی۔ اس خونچکاں انسانی المیے میں ہر گھرانے کی اپنی ایک داستان تھی اور ہر فرد کی ایک کہانی تھی۔ میرے بچپن تک اس اکھاڑ پچھاڑ کے معاشی اور سماجی اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاتے تھے۔ آج ذاتی یاد کی کتاب سے ایک ورق سناتا ہوں۔ رازداری کے خیال سے نام اور جگہ بدل دیے ہیں۔ مذہبی مسلک کا ذکر آئے گا لیکن درویش کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تعصب یا دل آزاری اس کا شیوہ نہیں۔ دہلی کے قریب ایک قصبے کا اہل تشیع تعلیم یافتہ گھرانا وسطی پنجاب میں آ کے آباد ہوا۔ نسلوں سے ایک جگہ بسنے والے جب نئے ٹھکانوں پر پہنچتے ہیں تو گلیاں اور بازار ہی تبدیل نہیں ہوتے، نئے تعلق اور رشتے بھی جنم لیتے ہیں۔ اقدار کے تبدیل ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اس گھرانے میں چار بھائی اور ایک بہن اسکول کالج میں تعلیم پا رہے تھے۔ بھائیوں کی طرح بہن بھی سنہ ساٹھ کے لگ بھگ پنجاب یونیورسٹی پہنچی۔ ایک مہذب اور ذہین نوجوان سے ربط ہو گیا۔ بچی نے گھر میں شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ باپ اور بھائیوں کو اعتراض نہیں تھا لیکن بچی کی والدہ کو قلق تھا کہ لڑکا اہل تسنن مسلک سے ہے۔ شادی ہو گئی اور بہت کامیاب رہی۔ تاہم والدہ برسوں رشتے دار خواتین سے کہتی رہی ’لڑکا شیعہ ہو گیا ہے‘۔ ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ بھائی کچھ مدت تو والدہ کا یہ بے ضرر سا جھوٹ سنتے رہے پھر ایک روز بڑے بھائی مطاہر نے کسی قدر اکتا کر کہا۔ ’اماں غلط بیانی کیوں کرتی ہیں۔ شیعہ کوئی ایسے ہوا جاتا ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں نوحہ خوانی سنتا ہے۔ باپ کی انگلی پکڑ کر مجلس عزا میں جاتا ہے۔ قد نکالتا ہے تو عاشورہ کے آداب سیکھتا ہے۔ ماتم میں شریک ہوتا ہے۔ نسل در نسل ایک روایت ہوتی ہے۔ آپ فرماتی ہیں، لڑکا شیعہ ہو گیا ہے۔ ایسے جیسے کپڑے بدل لیے‘۔ مطاہر بھائی کا یہ جملہ کئی برس تک جب گھر میں دہرایا جاتا تو سب مسکرا اٹھتے۔
آج یہ واقعہ ایک خاص تناظر میں عرض کیا۔ حالیہ مہینوں میں میاں نواز شریف کی خاموشی، طرز سیاست اور کسی قدر عقب نشینی پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوئی ہیں اور بیشتر کسی قدر طنز یا تشنیع کا رنگ لیے ہوئے۔ سیاست دنیا کا مشکل ترین پیشہ ہے۔ اس میں بے پناہ ذہانت، رچا ہوا علم، معاملہ فہمی اور معاشرے کے پیچ در پیچ دھاروں سے گہری آشنائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسانی تاریخ کا گہرا شعور درکار ہوتا ہے۔ اپنے عہد کے امکانات سے آگاہ ہونا پڑتا ہے۔ کم عمر بچہ اپنے اردگرد کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ درس گاہ میں نئی دنیائوں کی خبر پاتا ہے۔ نوجوانی کے جوش میں نعرے لگاتا ہے۔ جلسہ مرتب کرنا سیکھتا ہے۔ سیاسی تنظیم کے اصول سمجھتا ہے۔ بزرگ سیاست دانوں سے اختلاف اور مفاہمت کی حدود سیکھتا ہے۔ خطابت کے نکات معلوم کرتا ہے۔ گرفتار ہوتا ہے، روپوش ہوتا ہے۔ سیاست اور اقتدار کا تعلق معلوم کرتا ہے۔ سفارت کے آداب اور دلیل تراشنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ مکالمے کی تہذیب سمجھتا ہے۔ معیشت کی حرکیات سے آشنا ہوتا ہے۔ متنوع مفادات میں سمجھوتے کی راہ نکالنے کا ہنر اکتساب کرتا ہے۔ ’تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‘۔ چرچل 25 برس کی عمر میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ چالیس برس سیاست کرنے کے بعد مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ ایک ریاستی اہلکار اپنی مدت ملازمت پوری کر کے جس عمر میں ریٹائر ہوتا ہے، سیاست دان بمشکل کارکن سے مدبر کے درجے پر پہنچتا ہے۔ ہماری تاریخ دیکھئے۔ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تو وہ 56 برس کے تھے۔ ایوب خان نے سہروردی کو سیاست سے بے دخل کیا تو وہ 66 برس کے تھے۔ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا تو ان کی عمر 51 برس تھی۔ بینظیر کو شہید کیا گیا تو وہ 54 برس کی تھیں۔ 28 جولائی 2017ء کو ’پراجیکٹ عمران‘ مکمل کرنے کے لئے نواز شریف نااہل قرار پائے تو وہ 68 برس کے تھے۔ ہم نے اس ملک میں سیاست کے پودے کو تدبر کا تناور شجر بننے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اکتوبر 2023ء میں نواز شریف وطن لوٹے تو ان کی عمر 73 برس ہو چکی تھی۔ اب صحت کا وہ عالم تھا اور نہ جسمانی توانائی وہ رہی۔ معزولی، جلاوطنی اور قید کے مختلف مرحلوں میں ان کی سیاست کے چوبیس برس ضائع ہو گئے۔ عشروں کی محنت سے سیاسی شعور سے محروم رکھے گئے عوام کو تاثر دیا گیا کہ نواز شریف گٹھ جوڑ کر کے وزیراعظم بننے آرہے ہیں۔ فروری 2024ء کے انتخابات جمہوری سیاست کا شفاف چشمہ نہیں، سازش اور معاشی بحران کی گدلی بدرو تھے۔ کیا مانسہرہ میں نواز شریف اور پنجاب میں ان کے قریبی رفقا رانا ثنا اللہ، سعد رفیق اور جاوید لطیف وغیرہ کی انتخابی شکست محض اتفاق تھا۔ اپریل 2022ء سے 9 مئی 2023ء تک کی سیاسی کشمکش محض ایک حادثہ تھی؟ پاکستان کا سیاست دان 1973ء کا دستور مرتب کرتا ہے تو ہم 1985ء کی آٹھویں ترمیم کا جال بچھاتے ہیں۔ چودہ برس کی محنت سے گاڑی سیدھے راستے پر مڑتی ہے تو 2003ء کی سترہویں آئینی ترمیم مسلط کی جاتی ہے۔ فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم لاہور میں کھڑے ہو کر پاکستان تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو کارگل ہو جاتا ہے۔ سیاست دان میثاق جمہوریت کرتے ہیں تو محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا جاتا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم لاتے ہیں تو میموگیٹ کا ہانکا کیا جاتا ہے۔ 21 اکتوبر 2024ء کو منظور ہونے والی آئینی ترمیم 1996ء کے الجہاد ٹرسٹ فیصلے اور 2011ء کی 19ویں آئینی ترمیم کا جمہوری جواب ہے۔ ہیولوں کی سیاست میں تقرری، توسیع اور میعاد کے معاملات برسوں کے لیے قوم کی معیشت اور تمدنی ترقی کا راستہ کھوٹا کرتے ہیں اور ہم ایسے معصوم ہیں کہ طنزیہ مسکراہٹ سے پوچھتے ہیں، ’نواز شریف دل برداشتہ کیوں ہیں؟‘