• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ملک میں کوئی ایسا ساکھ والا سینئر شہری نہیں ہے جو آمنے سامنے کھڑے ہونے والے اداروں کو تھوڑا سا ٹھنڈا شربت پلاکر رام کرے۔ ہمیں یاد ہے جب ایک ’’ٹروایکا‘‘ (Troika) ہوتی تھی تو لڑنے والے دو فریقین میں تیسرا فریق یا تو صلح صفائی کرا دیتا تھا یا فیصلہ کردیتا تھا۔ ایک وقت یہ کام جنرل کاکڑ نے کیا اور جب غلام اسحٰق خان اور نواز شریف نہیں مانے تو دونوں کے کڑاکے نکال دئیے گئے۔ آج کل اس مثلث میں کچھ نئے پلیئر آگئے ہیں جیسے عدلیہ جبکہ صدر صاحب اب صرف انگوٹھے لگانے کیلئے رہ گئے ہیں۔سنا ہے اکثر بور ہوتے رہتے ہیں اور کام کی تلاش میں رہتے ہیں مگر وزیر اعظم اتنے لائق فائق ہیں کہ سارے کام وہ خود ہی کرکے صدر صاحب کو مشورہ دے دیتے ہیں اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ مگر صدر صاحب فوج کے سپاہ سالار اعلٰی بھی تو ہیں اور پارلیمان کے بھی بڑے بزرگ ہیں تو اگر کوئی صدر ذرا باہمت ہوتا تو اپنے دونوں چھوٹوں کو بلاکر بہلا پھسلا کر لڑنے سے روک دیتا کیونکہ ملک آج کل اس قسم کی لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یا پھر اگر زرداری صاحب کی ساکھ کچھ اچھی ہوتی یا کوئی فوج کا سابق سربراہ ایسی عزت کا حامل ہوتا کہ صلح صفائی کروا سکتا تو حالات اور خراب نہ ہوتے مگر قحط الرجال ایسا ہے کہ جس اینٹ کو اٹھائو نیچے سے کیڑے ہی نکلتے ہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے۔ مشرف کا کیس حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے اور کئی لوگوں کا خیال ہے یہ کیس فوج کو ہمیشہ کیلئے سیاسی قیادت کے تابع بنا دے گا جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں آج کل کا وقت اور ملکی اور علاقائی حالات اس تجربے کی ابھی اجازت نہیں دیتے۔ پچھلے دنوں میں کشیدگی بجائے کم ہونے کے بڑھ گئی ہے اور سب اپنے اپنے اداروں کی عزت اور اہمیت بچانے کے لئے تیار ہیں مگر ملک کو پہاڑ جیسے مسائل سے نکالنے کے لئے وہ جذبہ نظر نہیں آتا۔ مشرف کے کیس کا فیصلہ تو جمعرات کو عدالت عالیہ نے دے ہی دیا کہ وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں تو اب ان کے لئے جو عدالت لگائی گئی ہے وہ کیا کرے گی ظاہر ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس کو مشرف کو بری نہیں کرسکتی اب فوج نے اپنا موقف کھل کر پیش کردیا ہے اور حکومت نے بھی۔ اس ڈیڈ لاک یا Gridlock کو کیسے حل کیا جائے ظاہر ہے فوج حکومت کو گرا نہیں سکتی اور اصولی موقف حکومت کا صحیح ہے عدلیہ اور میڈیا بھی فوج کے ساتھ اس معاملے پر ساتھ نہیں دے گا۔ تو فوج کو عدالتی فیصلے مان لینے چاہئیں مگر مسئلہ فیصلوں کا نہیں مسئلہ گالی گلوچ اور ہتک کا ہے۔ فوج والے کہتے ہیں کہ ہم سارے عدالتی فیصلے ماننے کو تیار ہیں مگر احتساب پھر سب کا ہونا چاہئے اورنظرآناچاہئےپچھلی حکومت اورزرداری صاحب جوکارنامےکر گئے ان پرنواز حکومت پردہ ڈال رہی ہے اور فوج کو سب مل کر ٹارگٹ کررہے ہیں۔ یہ دلیل نجی محفلوں میں فوج کے لوگ بڑی شدت سے دیتے ہیں مگر پھرایک سابق جنرل اور ان کے بھائیوں کے قصے جب سامنے آتے ہیں تو فوجی کچھ شرمندہ سے نظر آتے ہیں مگر کیانی صاحب کا کوئی دفاع نہیں کرتا کہا جاتا ہے زرداری صاحب نے کیانی صاحب کو رام کرنے اور ٹھنڈا رکھنے کا پورا انتظام کر رکھا تھا۔ مگر اب جنرل راحیل سامنے ہیں اور نواز شریف کے پاس وہ کرتب دکھانے کو نہیں ہیں جن کی وجہ سے زرداری نے کیانی کو ستو پلا دئیے تھے۔ یہ جنگ تو کبھی نہ کبھی ہونی تھی مگر نواز شریف نے جس کو وقت چنا ہے وہ نامناسب ہے۔ غیرملکی بھی پریشان ہیں اور ابنی اسلام آباد کے قریب بارہ کھوہ میں ایک دعوت میں جب میں نے ایک اعلٰیٰ امریکی سفارتکار سے پوچھا کہ آپ دوسرے ملکوں کے درمیان تو Track-2 ڈپلومیسی کروا رہے ہیں کیا پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان Track-2 نہیں کھل سکتا۔ امریکی زور سے ہنسے اور پھر کہا ضرورت تو شدید ہے۔ سعودی چینی اور ہمارے ترک بھائی تو اپنی کوشش کر بیٹھے کے مشرف کو باہر لے جائیں مگر اب معاملہ کافی آگے بڑھ گیا ہے۔ بیانات آگئے ہیں اور اداروں نے اعلان دفاع یا اعلان جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں ادھر ہمسایہ ملکوں کے حالات بدل رہے ہیں اور غیریقینی کی کیفیت ہے۔
لاہور میں ایک صاحب نے جو کافی اندر کی خبر رکھتے ہیں کہا کہ اگر 35 یا 50 یا 100 پنکچروں کا مسئلہ حل کردیا جائے اور کسی عدالت میں پنکچر لگانے کی دکان کھول دی جائے تو شاید لوگ اپنے اپنے جھگڑوں کو جلدی نپٹا لیں۔ ابھی ان لاہوری صاحب سے بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ممتازبھٹو کا بیان کراچی سے آگیا کہ PPP نے بھی بڑی دھاندلیاں کی ہیں سندھ میں۔کچھ لوگ نئے آنے والے چیف جسٹس صاحب سے بھی بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور اسلام آباد میں جب میری ملاقات سابق چیف صاحب یعنی افتخار چوہدری سے ہوئی تو وہ بڑے پرامید تھے کہ عدلیہ اور خاص کر سپریم کورٹ بہت مضبوط ہے اور کھڑی رہے گی۔
تو اب معاملات کدھر جائیں گے کیا سرد جنگ چلے گی یا کوئی مداخلت کام آئے گی۔ حکومت جس تیزی سے بزنس کے معاملات میں پھرتیاں دکھا رہی ہے اس سے بھی کئی جگہ خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں سوال پوچھے جارہے ہیں کہ قطر سے LNG کے معاہدوں میں اتنی جلدی کیا ہے اور فوجی فائونڈیشن کے ایک جنرل صاحب نے تو وزیر اعظم کو خط بھی لکھ دیا ہے کہ یہ کراچی کی بندرگاہ کے لئے بڑا سیکورٹی رسک ہوگا۔ چین کے تحفظات اپنی جگہ مگر حکومت بیرونی قرضے دھڑلے سے لے رہی ہے اور ڈالر کو باندھ کر رکھا ہے۔ ڈار صاحب بہت تیز کام دکھا رہے ہیں۔ ابھی اس موضوع پر اتنا ہی کافی ہے۔ ادھر عمران خان کی پارٹی میں اچانک فارورڈ بلاک کے نمودار ہونے پر بھی بڑی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔کیا عمران خان کے ہاتھ میں سے کنٹرول جارہا ہے یا وہ سنبھال نہیں پا رہے۔ کیا یہ بلاک کسی نے بنوایا ہے۔ کیا یہ ان کو قابو میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مگر عمران کی دو باتیں تو ٹھیک ثابت ہورہی ہیں ایک یہ کہ طالبان سے مذاکرات سے طالبان کا پول کھل جائے گا اور اچھے اور برے کا فرق معلوم ہوجائے گا۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہےکہ طالبان خوداپنےکرکارناموں کو غیراسلامی اور غیرشرعی کہہ رہے ہیں یعنی ان کے ترجمان کا یہ بیان کہ معصوم انسانوں کا قتل جائز نہیں۔ تو پھر جو بے گناہ طالبان کے ہاتھوں مارے گئے ان کا حساب یہاں ہوگا یا روز قیامت۔ دوسری بات عمران نے کہی کہ جو طالبان بات نہیں سنیں گے ان کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا تو لگتا ہے آپریشن تو ہوگا ہی فوراً نہ سہی کچھ ہفتے بعد مگر یہ سوال کئی اور دوسرے سوالوں کی طرح کئی دن زیر بحث رہے گا۔ سوالوں کا ذکر آیا تو مجھے اپنے والد قدوس صہبائی کی لکھی ہوئی ایک مختصر افسانوں کی کتاب جو جناح پریس دہلی میں 40 کی دہائی میں ’’نئے خاکے‘‘ کے نام سے چھپی تھی اس کا ایک چھوٹا سا افسانہ یاد آگیا۔ عنوان تھا ’’اصل سوال‘‘ اور چند لائنوں کے اس مضمون میں کافی لوگوں کے مسائل کا حل تجویزکیاگیا تھا۔ میں وہ چند لائنیں یہاں دہرا دیتا ہوں۔
اصل سوال
سوشلسٹ نے کہا: ’’اصل سوال روٹی کا ہے‘‘۔
فلسفی نے کہا: ’’اصل سوال احساس کا ہے‘‘۔
سرمایہ دار نے کہا: ’’اصل سوال دولت کی پیداوار کا ہے‘‘۔
مسلمان نے کہا: ’’اصل سوال پاکستان کا ہے‘‘۔
ہندو نے کہا: ’’اصل سوال ہندی کا ہے‘‘۔
طوائف بولی: ’’اصل سوال گاہکوں کا ہے‘‘۔
کنوارے نے کہا: ’’اصل سوال عورت کا ہے‘‘۔
عورت نے فریاد کی: ’’اصل سوال آزادی کا ہے‘‘۔
خدا نے سب کچھ سنا اور مسکرا کر کہا۔ ’’احمقوں کے لئے کوئی نہ کوئی اصل سوال ہمیشہ باقی رہے گا۔ اصل میں اصل سوال کچھ نہیں۔ اگر ہے تو اصل سوال عقل کا ہے۔ عقل ہوتو کوئی سوال سوال نہیں رہتا‘‘۔
تازہ ترین