دنیا بھر میں ہجرتی پرندوں کی تعداد میں کمی، اُن کے قدرتی مساکن کی دورانِ ہجرت فضائی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور ہجرت کے بعد ان علاقوں میں درپیش خطرات کی طرف توجّہ مبذول کروانے کے لیے ہر سالMigratory Bird day (ہجرت کرنے والے پرندوں کا دن) عالمی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔ رواں برس 10مئی کو یہ دن منایا گیا، جب کہ دوسری بار اکتوبر کے دوسرے ہفتے،11اکتوبر 2025ء کو بھی منایا جارہا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد دراصل عوام النّاس کو عالمی سطح پر ہجرت کرنے والے پرندوں کے تحفّظ، اُن کی ماحولیاتی اہمیت اور اُن کے بقا سے متعلق آگہی فراہم کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی تھیم Shared Spaces: Creating Bird-Friendly Cities & Communities یعنی ’’پرندوں کے دوست شہر اور برادری کے قیام کے لیےمشترکہ جگہیں‘‘ ہے۔
اس تھیم کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پرندے اور انسان دراصل ایک ہی ماحولیاتی نظام کے مسافر ہیں، ایک ہی فضا، پانی اور زمین کو بانٹتے ہیں۔ اگر ہمارے شہر اور بستیاں پرندوں کے لیے محفوظ اور دوستانہ ہوں گی، تو وہ انسان کے لیے بھی پائےدار اور متوازن ہوں گی۔ بلاشبہ، ہجرتی پرندے قدرت کی اُن حسین علامات میں سے ہیں، جو ہمیں زندگی کے تسلسل، بقا کی جستجو اور فطرت کی حکمت کی یاد دلاتی ہیں۔
پاکستان میں کچھ عرصے قیام کی غرض سے ہجرت کرنے والے یہ پرندے، ہزاروں میل کا سفر طے کرتے ہیں اور جو فضائی راستہ اختیار کرتے ہیں، اُسے ’’انڈس فلائی وے‘‘ یا گرین روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عالمی سطح پر ’’انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4‘‘ کہلاتا ہے۔ہجرتی پرندے پاکستان کے طول و عرض میں موجود چھوٹی بڑی آب گاہوں، گیلی زمینوں (wet lands) میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، جو ہمالیہ سے لے کر ساحلِ سمندرمیں موجود تمر (مینگروز) کے جنگلات تک پھیلی ہوئی ہیں۔
وسطی ایشیا، مغربی یورپ، مشرقی سائبیریا اور روس سے ہجرتی پرندے ہر سال ماہِ نومبر میں پاکستان آتے اورمارچ کے مہینے میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ ماہرینِ زوآلوجی کے مطابق، کچھ پرندے سالانہ 70ہزار کلومیٹر تک کا سفر کرتے ہیں، جو زمین کے گرد لگ بھگ دو چکّر کے برابر ہے۔ ان میں Arctic Tern نامی پرندہ بھی شامل ہے، جو شمالی قطب سے جنوبی قطب تک طویل ترین سفر کے بعد واپسی کی راہ اختیار کرتا ہے۔
کچھ پرندے دن میں پرواز کرتے ہیں، کچھ رات کو، کچھ دورانِ سفر مختصر قیام کرتے ہیں اور پھر اگلی صبح آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم،یہ مسلسل جدوجہد آج کی دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں، برف کے تیزی سے پگھلنے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، فضائی آلودگی، شہری توسیع اور دیگر منفی انسانی سرگرمیوں کے باعث خطرات سے دوچار ہے۔
ایکو لوجی کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہجرت کرنے والے یہ پرندے دراصل ’’ایکو سسٹم انڈی کیٹر‘‘ ہیں، ان کے رویّے ہمیں یہ باور کرواتے ہیں کہ زمین کا ماحولیاتی توازن کس سمت جارہا ہے۔ پرندوں کی ہجرت کے رویّے میں کئی زولوجیکل اور ایکولوجیکل عوامل شامل ہیں۔
کچھ پرندے جینیاتی طور پر نسل دَر نسل ہجرت کرتے ہیں، کچھ ماحولیاتی دباؤ اور قدرتی آفات، مثلاً طوفانوں، آتش فشاں کے پھٹنے، خشک سالی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں، جب کہ کچھ مخصوص گروہ یا نسل کے پرندے، موسمی تبدیلی کے باعث جگہ تبدیل کرکے کسی محدود علاقے میں جا پہنچتے ہیں۔ اُن کا یہ عمل نہ صرف حیاتیاتی بقا کا ضامن ہے، بلکہ یہ کرئہ ارض پر نسلی تنوّع اور ماحولیاتی توازن کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر برّاعظم سے پرندوں کی ہجرت کا یہ سلسلہ موسم کی مناسبت سے سال بھر جاری رہتا ہے۔ قیمتی اور مختلف النوع پرندے یورپ، افریقا، ایشیا، امریکا اور آسٹریلیا سے اپنی مخصوص راہ داریوں کے ذریعے ہزاروں میل کاسفر طے کرتے ہیں، جب کہ پاکستان کو اس حوالے سے ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ یہاں سے دنیا کی سب سے اہم انڈس گرین فلائی روٹ وے گزرتی ہے، جس پر ہر سال سائبیریا اور وسطی ایشیا سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں نایاب پرندے صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے آبی ذخائر، جھیلوں اور دریاؤں پر بسیرا کرتے ہیں۔
پاکستان میں ان پرندوں کی حفاظت کے لیےسندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن اور پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ وغیرہ موجود ہیں، تاہم اُن پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری جانب غیر قانونی شکار، جال بچھا کر پکڑنا، بازوں کی تربیت کے لیے پرندوں کا شکار اور جھیلوں کی آلودگی کے سبب نایاب پرندوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
پرندوں کی ہجرت کو سمجھنے کے لیے ماہرین مختلف سائنسی طریقے استعمال کرتے ہیں، مثلاً سیٹلائٹ ٹریکنگ کے ذریعے کسی پرندے کے سفر کی مکمل نگرانی اور اُن کی نقل و حرکت ریکارڈکرنے کے علاوہ رہائش گاہوں اور پرواز کے راستوں کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان عوامل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرندے نہ صرف فطرت کا حصّہ، بلکہ انسان کے لیے بھی معاشی اور ماحولیاتی طور پر فائدہ مند ہیں۔
یہ پرندے مختلف کیڑے کھا کر فصلوں کو بچاتے ہیں، بیجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے جنگلات کی بقا ممکن بناتے ہیں اور ایکو ٹورازم کے ذریعے مقامی معیشت کو بھی سہارا دیتے ہیں، مگر اُن کے تحفّظ کے لیے ہمیں صرف قانون یا سائنسی تحقیق پر اکتفا نہیں کرنا ہوگا، بلکہ عوامی شعور بھی اجاگر کرنا ہوگا۔
شہریوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ہمارے شہر اور بستیاں پرندوں کے لیے غیر محفوظ ہیں، تو یہ بالآخر ہمارے لیے بھی غیر محفوظ ہوں گے۔ ہمیں اپنے شہروں میں پرنددوست اقدامات کرنا ہوں گے، مثلاً درخت لگانا، تالاب اور جھیلوں کی صفائی، روشنی کی آلودگی کم کرنا، اور غیر قانونی شکار پر سخت پابندی عائد کرنا بے حد ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پرندوں کی ہجرت، زمین کی ایک عظیم الشّان بائیولوجیکل نقل و حرکت ہے، جو زمین کے موسموں کو آپس میں باندھتی ہے۔ اگر قطبِ شمالی میں برف پگھل رہی ہے، تو اس کا اثر اُن پرندوں پر بھی ہوتا ہے، جو پاکستان کی جھیلوں پر اُترتے ہیں۔
اگر افریقا میں صحرا کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے، تویورپ کے دیہات میں بہار کا پیغام لانے والے پرندوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں، تواس سے واضح ہوتا ہے کہ پرندوں کا تحفّظ دراصل زمین کے ماحولیاتی توازن کا تحفّظ ہے، اور یہی 2025ء کے ورلڈ مائیگریٹری برڈ ڈے کا پیغام بھی ہے کہ ’’انسان اور پرندے ایک ہی کائناتی سفر کے شریک ہیں۔‘‘ اگر ہم اپنے شہروں اور برادریوں کو پرندوں کے لیے ’’دوستانہ‘‘ بنالیں، تو یہ زمین سب کے لیے ایک بہتر مسکن بن سکتی ہے۔