شاعرِ مشرق، علاّمہ محمد اقبال نے اپنی شہرۂ آفاق نظم، ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ اسپین میں قیام کے دوران لکھی۔ اس نظم میں انہوں نےزمان و مکاں اور عشق کے فلسفے، عشق اور مسجدِ قرطبہ میں تعلق، مسجد کے معماروں کی خوبیوں، مردِ مومن کی صفات، موجودہ ہسپانوی باشندوں میں مسلمان آبائو اجداد کی جھلک، یورپ میں رُونما ہونے والے انقلابات کے پس منظر میں قبولِ اسلام کی دعوت، مُلک میں اسلامی انقلاب لانے کی اپیل اور انقلاب کے لیے جدوجہد اور اس کے ثمرات کا تذکرہ کیا ہے۔
مذکورہ نظم میں علاّمہ اقبال اہلِ اسپین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ستاروں کی نگاہ میں تمہاری زمین کی مثال آسمان سی ہے، جس سے وہ خیر اور رحمت کی امید لگائے بیٹھے ہیں، مگر افسوس کہ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود تمہاری فضا سے انسانوں کو اللہ کی طرف بُلانے والی بانگ، صدا بلند نہ ہو سکی۔‘‘ اِسی طرح ایک بند میں فلسفۂ عشق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ عشق کا قافلہ خواہ کہیں بھی جائے، آزمائشوں کا سامنا کرنا اُس کی فطرت ہے۔ عشق کا کارواں ظالموں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے۔
وہ شکست تسلیم نہیں کرتا اور جفاکشی سے ہر قسم کی آفات و بلّیات کا سہہ جاتا ہے۔ وہ قافلہ اس سر زمین پر آیا تھا، لیکن اب نظر نہیں آ رہا۔ وہ یہیں کہیں ٹھہرا ہوا ہے۔ آسمان پر ستارے اور زمین پر حُکم رانوں کے ظلم و ستم کے مارے عوام اسی سخت جان قافلے کا شدّت سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب وہ پہلے کی طرح آئے گا اور اُن کے دُکھوں کا مداوا کرے گا۔‘‘
اگلے چار اشعار میں علاّمہ ہسپانوی باشندوں کو ان کے پڑوسی ممالک کی مثالیں دے کر مزید جھنجھوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لو۔ تمہارے مُلک کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جرمنوں نے اصلاحِ دین کی شورش برپا کی اور پرانے عقائد کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ انہوں نے پوپ کی عزّت پامال کر کے مُلک میں جدید فکر کی بنیاد پر نیا نظام قائم کر دکھایا۔ پھر تمہاری ہی سرزمین سے علم حاصل کر کے اہلِ فرانس اُٹھے اور انہوں نے بادشاہت کے قدیم نظام کے تار و پود ادھیڑ کر رکھ دیے اور اُن کے اس عمل سے پورے یورپ میں ایک انقلاب آ گیا، جس نے بادشاہت رخصت کر کے جمہوریت رائج کی۔
پھر رومیوں نے، جو تمہارے تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوئے تھے، اٹلی میں 750قبلِ مسیح سے قائم شہنشاہیت کا نظام تہہ و بالا کر کے جدید فکر کی بنیاد پر اپنی تجدیدِ نو کی، لیکن ان تمام انقلابات کے باوجود تم ٹَس سے مَس نہ ہوئے کہ اپنے شان دار ماضی کے نظامِ عدل و قسط کی تجدیدِ نو کر کے ایک نیا نظامِ زندگی استوار کرتے اور بالخصوص یورپ اور بالعموم دُنیا کے سامنے سُرخ رُو ہوتے۔ افسوس کہ تم اب تک خود کو بازیاب کرنے میں ناکام ہو۔‘‘
اسی نظم میں علاّمہ اقبال نے اسپین میں اسلام کا درد رکھنے والے اُن غیر مسلموں کے لیے، جن کے آباؤاجداد مسلمان تھے، ’’رُوحِ مسلماں‘‘ کا کنایہ استعمال کیا ہے۔ اس بند کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ رُوحِ مسلماں اپنے اضطراب کو کیسے عمل میں ڈھالے گی اور مسلمانوں کا دل اپنی بے چینی اور بے قراری کا کیسے مداوا کرے گا، یہ رازِ خدائی ، اللہ کا پوشیدہ اَمر ہے۔
خدا کے اس بھید سے متعلق میری زبان اور قلم کی نوک کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس طور سے حالات کا رُخ مُڑے گا اور کس وادی سے عشقِ بلا خیز کا وہ گُم شُدہ قافلہ برآمد ہو کر دُنیا کو عدل و انصاف سے بَھر دے گا۔کہنے کو تو اسپین کے بحر کی تہہ موتیوں سے مالامال ہے۔
اس سمندرکے نیچےکتنے صدف ایسے ہیں کہ جو اپنے گوہر تیار کیے تَلے میں موجود ہیں اور زیرِ دریا عرصہ ٔدراز سے کسی غوطہ خور کی آمد کے منتظر ہیں، لیکن وہ غوطہ خور شاید ابھی نیلے آسمان کی طرف سے حکمِ ربّی کا اشارہ پانے کے منتظر ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے منظوری ہو جائے گی، تو دیکھ لینا کہ یہی نیلا آسمان اپنا رنگ بدل لے گا اور اسپین کا پورا ماحول اسلام کے حق میں تبدیل ہو جائے گا اور پھر دریائے کبیر کا آبِ ذخّار اپنے تمام چُھپے ہوئے خزانے اُچھال کر پانی کی تہہ سے سطح پر لے آئے گا۔‘‘
پھر ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ہی میں دریائے کبیر کو مخاطب کرکے کہے گئے اشعار کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ’’ اے دریائے کبیر ! کوئی ہے کہ جو تیرے کنارے پر بیٹھ کر بہ ظاہر تیرے بہتے پانی کو دیکھ رہا ہے، مگر در حقیقت اسے اللہ کی بارگاہ میں تیرے مستقبل سے متعلق کیے جانے والے فیصلوں کے غیبی اشارے نظر آ رہے ہیں۔ آنے والا دَور گو کہ ابھی تقدیر کے پردے میں پوشیدہ ہے، لیکن اس دَور کے آغاز کی صبح میری نظر میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
اگر آج اپنے کلام کے چہرے پر پڑا رموز و کنایا جات کا نقاب اُٹھا دوں، تو بلادِ یورپ میرے خیالات و افکار کا طوفان برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ جس بوسیدہ معاشرے میں انقلاب کے دروازے بند ہو جائیں، وہ گل سڑ کر تباہ ہو جاتا ہے۔ اُمّتوں کی زندگی نئے دَور کے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلتے رہنے کی قوّتِ کا نام ہے۔‘‘ جب کہ اہلِ اسپین کو انقلاب لانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اے ہسپانیہ کے لوگو! اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک کے تجربات سے یہ تو سیکھ لو کہ اُمّتوں اور اقوام کی زندگی کا راز انقلابی جدوجہد میں مضمر ہے۔ اگر جرمنی اور اٹلی میں انقلابی تحاریک نہ اُبھرتیں اور اہلِ یورپ ان انقلابات کو اپنے اپنے نظاموں میں سمو کر تبدیلی کے عمل سے نہ گزرتے، تو کیا حالات ہوتے۔
یقین جانو کہ اسلام کی آمد سے قبل یورپ میں جو ’’ڈارک ایجز‘‘ کا زمانہ تھا، وہ کئی گُنا شدّت کے ساتھ واپس لوٹ آتا اور حالات انتہائی ابتر ہوتے۔ انہوں نے تو اپنی فہم و فراست کے مطابق اپنے اپنے معاشروں کو بدل کر ایک نئے دَور کا آغاز کر دیا ہے لیکن دراصل یہ کوئی نیا دَور نہیں ہے۔ انہوں نے نئے دَور کے نام پر قبلِ مسیح کے فلاسفہ کے قدیم نظریات کی جانب رجعتِ قہقری کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کا یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا ہے۔
اب تمہاری باری ہے۔ ان تمام ممالک کے ناکام و نامُراد انقلابات تمہیں اسلامی انقلاب لانے کی دعوت دے رہے ہیں۔اُٹھو اور اپنے ماضی کے نظام کو جدید دَور کے تقاضوں میں ڈھال کر معاشرتی مساوات، اخوّت، معاشی عدل اور سیاسی رواداری کی بنیاد رکھ کر ایک نئے انقلاب کا اعلان کرو۔‘‘ (مضمون نگار ’’اقبالیات‘‘ کے حوالے سے نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر علاّمہ محمّد اقبال سے متعلق ان کی تین کُتب بھی منظرِ عام پر آچُکی ہیں۔ نیز، ’’دانش گاہ اقبال‘‘ کے سربراہ بھی ہیں۔ )
جن کے لُہو کی طفیل آج بھی ہیں اُندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دل نشیں
بُوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں
دیکھ چُکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں
حرفِ غَلط بن گئی عِصمتِ پیرِ کُنِشت
اور ہُوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چُکی انقلاب
جس سے دِگرگُوں ہُوا مغربیوں کا جہاں
ملّتِ رومی نژاد کُہنہ پرستی سے پیر
لذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا