مجھے آج تک دو باتیں سمجھ نہیں آئیں۔ پہلی، جہاز کے سفر میں بے ضرر اشیا لے جانے کی ممانعت کیوں ہے، دوسری، ہوائی اڈوں پر ڈیوٹی فری شاپس کس مرض کی دوا ہیں۔چھوٹی قینچی، سگرٹ لائٹر، پانی کی بوتل اور اِس طرح کی بے شمار چیزیں آپ دستی سامان میں نہیں لے جا سکتے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اِن میں سے کون سی چیز جہاز کو اغوا کرنے میں کام آسکتی ہے، بہت سوچا تو ایک بات یہ ذہن میں آئی کہ کوئی ہائی جیکر پانی یا جوس کی بوتل کے دھوکے میں پٹرول لے جا سکتا ہے اور اسے سگریٹ لائٹر دکھا کر آگ لگا سکتا ہے۔ گویا ”مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو، کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا“۔ اِن چِن ہوائی اڈہ سول سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر اِن چِن شہر میں ہے، راستہ بہت خوبصورت ہے، سڑک کے ساتھ ساتھ کہیں سمندر ہے اور کہیں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں، کوریا کی شان و شوکت ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ لیکن ائیرپورٹ کا نظام خاصا بیہودہ ہے، اگر آپ نے یہاں سے کوئی پرواز لینی ہے تو کم از کم چار گھنٹے پہلے گھر سے نکلنا ہوگا، اِس ہوائی اڈے پر میں نے جتنی طویل قطاریں دیکھیں وہ دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آئیں، حتّیٰ کہ شکاگو اور نیویارک میں بھی نہیں، اور اِس کی وجہ ہوائی اڈے کا مصروف ہونا نہیں بلکہ انتظامیہ کی بد انتظامی ہے۔ ائیرلائن کے کاؤنٹر سے چیک اِن کرنے کے بعد سیکورٹی گیٹ تک جانے کیلئے کم از کم ایک گھنٹہ قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ رہی بات ڈیوٹی فری شاپس کی تو اِن کا لطیفہ پوری دنیا میں ایک جیسا ہے، بظاہر ڈیوٹی فری لکھا ہوتا ہے لیکن قیمتیں شہر سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ممکن ہے اِس کی وجہ ائیر پورٹ کے کرائے ہوں مگر پھر ڈیوٹی فری کا دُم چھلا لگانے کی کیا ضرورت!
سول میں موسم بہت عجیب تھا، بے شک نیکر اور ٹی شرٹ پہن لو اور دل کرے تو اوورکوٹ چڑھا لو۔ صبح کے وقت گرمی، بارش میں سردی، رات کو مزید سردی اور اور پھر یکدم گرمی۔ میرا خیال تھا کہ موسم کے معاملے میں سول بھی بنکاک جیسا ہوگا لیکن یہ ہر اعتبار سے الگ ہی دنیا نکلی، اسلام آباد سے پرواز دس گھنٹے کی ہے، نہ جانے کیوں مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ یہ بنکاک کے بغل میں ہی کہیں ہوگا، نقشہ دیکھا تو سمجھ آئی کہ کوریا اور جاپان وغیرہ مشرقی ایشیا جبکہ تھائی لینڈ، ویت نام، ملایشیا سمیت گیارہ ممالک جو آسیان کہلاتے ہیں، جنوب مشرقی ایشیا میں آتے ہیں۔لیکن ہمیں یہ سب ایک جیسے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اُنہیں سارک ممالک کے باشندوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اِس بات کو میرے ایک کزن نے بہت دلچسپ انداز میں سمجھایا، اُس نے بتایا کہ نوّے کی دہائی میں وہ اپنے دوست کے پاسپورٹ پر امریکہ گیا تھا، میں نے پوچھا کہ آپ کی شکل تو اپنے دوست سے بالکل نہیں ملتی پھر آپ نے کس طرح اُس کا پاسپورٹ استعمال کر لیا، وہ ہنس کر بولا کہ امریکیوں کے نزدیک ہماری شکلیں بھی اسی طرح ایک جیسی ہیں جیسی ہمیں چینیوں جاپانیوں کی لگتی ہیں۔ موسم کے بعد سول کی دوسری خصوصیت اُس کا بار بی کیو ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہمارے میزبانوں نے اِس کا خصوصی اہتمام کیا ہوا تھا، ڈنر میں چکن بھی تھا اور بطخ بھی، یہاں تک تو بات قابل قبول تھی لیکن جب کھانے کی میز پر روسٹ ہواآکٹوپس دیکھا تو اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، میں معذرت کرکے اُٹھ آیا، انہوں نے بہت اصرار کیا تو میں نے کہا کہ اصل میں ناشتہ اتنا بھاری بھرکم کر لیا تھا کہ اب چکھنے کی بھی ہمت نہیں۔ اگلے روز وہ ہمیں ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں کورین کھانا بنانا سکھایا جاتا تھا، ایک بی بی نے بہت محنت کرکے ہمیں سبزی سے بنی ہوئی چند چیزیں بنا کر دکھائیں اور پھر کہا کہ اب آپ لوگ خود اپنا لنچ بنائیں اور وہی کھائیں۔ وہ تو شکر ہوا کہ ہمارے ساتھ ایک نوجوان کورین کھانا بنانا جانتا تھا ورنہ ہمیں لنچ ہی نصیب نہ ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ لنچ کیلئے میں نے سیون الیون کا رُخ کیا کیونکہ میں ابھی اتنا شاکاہاری نہیں ہوا کہ کوریا کی سبزیاں کھانے پر مجبور ہو جاؤں۔
سول شہر کے بیچوں بیچ دریائے ہان بہتا ہے، اِس دریا کے کنارے پر بلند و بالا اور پُر شکوہ عمارتیں قائم ہیں جنہیں آپ سول کی اسکائی لائن کہہ سکتے ہیں، یہاں کوریا کی تمام بڑی کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ دریا کی سیر کیلئے کروز موجود ہیں جن میں بیٹھ کر کھانے کے ساتھ ساتھ آپ دریا کا نظارہ کر سکتے ہیں، دنیا کے کئی شہروں میں عام سی بات ہے، لیکن ہمارے ہاں تو عام باتیں بھی ناپید ہوچکی ہیں، اول تو ہمارے دریاؤں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے، کبھی راوی لاہور میں بہتا تھا، اور یہ کوئی قبل از مسیح کا قصہ نہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے، اب نہ راوی رہا اور نہ وہ لاہور۔ جتنے دن میں کوریا میں رہا یہی سوچتا رہا کہ اِن لوگوں میں ایسی کیا خاص بات ہے جو ہم میں نہیں، لکھنے بیٹھوں تو شاید درجنوں ایسی باتیں گنوا دوں، لیکن آخری تجزیے میں بات صرف اتنی ہے کہ ہم نے کسی بھی نظام کے ثمرات نہیں سمیٹے ہمیشہ خسارہ ہی بوری میں بھرا ہے۔ یہی کوریا تھا جہاں 1988ء تک جمہوریت نہیں تھی، ہمارے ہاں بھی نہیں تھی، انہوں نے بھی امریکہ کے ساتھ مل کر ویت نام میں جنگ لڑی، ہم نے یہی کام افغانستان میں کیا، کوریا نے بھی امریکہ سے اربوں ڈالر لیے، ہم نے بھی کمائے، لیکن اِس کے باوجود ہم ٹیک آف نہ کرسکے جبکہ کوریا اِس وقت چالیس ہزار فِٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ اِس کی ایک ہی وجہ ہے کہ قوموں کو کسی ایک مقصد کے حصول کیلئےیکسو ہونا پڑتا ہے، کوریا نے اربوں ڈالر ضائع نہیں کیے بلکہ اپنی انڈسٹری پر لگائے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کورین ٹیکنالوجی کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا ہے۔ جبکہ ہم نے اپنی تمام تر توانائیاں ایٹم بم بنانے پر صرف کیں اور پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بالآخر بم بنا لیا، یعنی اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ کورین لوگ نہ ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور نہ ہم سے زیادہ قابل، یہ بالکل ہماری طرح ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارا گلیوں میں پلنے والا بچہ شاید اِن سے زیادہ ہی ہوشیار ہو، سول میں تو آپ کسی سے سامنے والی دکان کا راستہ پوچھ لیں تو وہ مردِ عاقل جیب سے موبائل نکال کر گوگل میپ دیکھنے لگ جاتا ہے۔سول ہو یا جکارتہ، بنکاک ہو یا کوالالمپور، اِن شہروں میںکسی کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جو لاہور، کراچی یا پشاور میں نہیں تھا، فقط ہم نے یہ غلطی کہ جو بس پکڑنی تھی وہ نہیں پکڑی، بلکہ اُس ویگن میں سوار ہو گئے جس کی کوئی منزل ہی نہیں تھی۔ یہی ہے حاصل کلام کوریا کے سفر کا! ۔