• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25 اکتوبر 2024ء کوجمعہ کا دن تھا ،صبح ساڑھے دس بجے شاہراہ دستور پر موجود سپریم کورٹ کی عمارت میں عدالت نمبر ایک پہنچا تو بلامبالغہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔سب سے پہلے جج صاحبان کی نشستیں گننے کی کوشش کی کیونکہ اطلاعات تھیں کہ بعض جج صاحبان سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں منعقد کئے گئے اس الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہورہے ۔چونکہ وفاقی شرعی عدالت کے بعض جج صاحبان اور گزشتہ ماہ تعینات کئے گئے دو ایڈہاک جج صاحبان بھی تشریف فرما تھے اس لئے یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ پانچ جج صاحبان نے اس محفل میں آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔یقیناً دیگر وجوہات اور اسباب بھی ہوں گے مگر ان پانچ جج صاحبان میں سے کم ازکم چار جج صاحبان چیف جسٹس بننے کا خواب دل میں لئے بیٹھے تھے اور قاضی فائز عیسیٰ نے یہ خواب تار تار کردیئے۔اگر آپ بدمزہ نہ ہوں تو چند لمحوں کا توقف کرکے اس جملے کی وضاحت کردوں۔

ایک عرصہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کرکٹ کے کپتان کی طرح باقاعدہ فیلڈنگ لگاتے ہیں اور جب اپنے چیمبر کے کسی بااعتماد شخص کو سپریم کورٹ میں بطور جج لانا مقصود ہوتا ہے تو پورا حساب کتاب لگایا جاتا ہے کہ کب کون ریٹائر ہوگا اور کون سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کے منصب پر متمکن ہوگا۔گویا سپریم کورٹ میں اپنی پسند کے جج نہیں بلکہ چیف جسٹس لاکر بٹھائے جاتے رہے ۔اس ضمن میں صرف ایک مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔

جسٹس ثاقب نثار سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے صاحبزادے سابق وزیر قانون خالد انور ایڈوکیٹ کے ساتھ کام کرتے رہے ۔جب وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے تو 2018ء میں دو جج صاحبان ریٹائر ہوئے۔اس وقت جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے سینئر موسٹ جج تھے اور الجہاد ٹرسٹ کیس کی روشنی میں انہیں سپریم کورٹ لانا چاہئے تھا لیکن جسٹس ثاقب نثار نے 8مئی2018ء کو جسٹس منیب اختر کو آئوٹ آف ٹرن ترقی دیکر سپریم کورٹ کا جج بنادیا۔جسٹس منیب اختر سندھ ہائیکورٹ میں سنیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر تھے ۔چند ہفتوں بعد یعنی 28جون 2018ء کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا گیالیکن اس ایک ماہ کی تاخیر کے پس پردہ محرکات کیا تھے۔جسٹس یحییٰ آفریدی 23جنوری1965ء کو پیدا ہوئے ۔اگر انہیں پہلے سپریم کورٹ میں تعینات کردیا جاتا تو جسٹس منصور علی شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ چیف جسٹس بنتے اور پھر عمر کی بالائی حد پوری ہونے تک یعنی 2030ء تک اس منصب پر متمکن رہتے۔

جسٹس منیب اختر جو خالد انور ایڈوکیٹ کے داماد ہیں ،اور ان کی تاریخ پیدائش 14دسمبر 1963ء ہے ،وہ 65سال کے ہوجانے پر 2028ء تک ریٹائر ہوجاتے اور چیف جسٹس نہ بن پاتے۔لہٰذا جسٹس منیب اختر کو سنیارٹی کے اصول کے برعکس جسٹس یحییٰ آفریدی سے پہلے سپریم کورٹ کا جج تعینات کرکے یہ اہتمام کیا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی ریٹائرمنٹ پر وہی چیف جسٹس بنیں ۔یہ صرف ایک جج کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پوری ترتیب بنائی گئی تھی ،26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ سب اہتمام اور بندوبست دھرے کا دھرے رہ گیا ۔قاضی فائز عیسیٰ چونکہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ آئین سازی میں رکاوٹ نہ بنے اور ادارہ جاتی مفادات کا تحفظ نہ کرنے پر راندہ درگاہ ٹھہرے۔

بہر حال اس تقریب میں سپریم کورٹ کی رجسٹرار جزیلہ اسلم منتظم کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں اور ان کے سامنے چیف جسٹس کے پرائیویٹ سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق احمد خان متمکن تھے ۔یہ ان کی بھی الوداعی تقریب تھی کیونکہ ڈاکٹر مشتاق احمد جو ماضی میں سول جج رہے اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں ،انہوں نے یہ ذمہ داریاں اسی شرط پر قبول کی تھیں کہ جس دن قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہوں گے ،اسی روز وہ بھی سبکدوش ہوجائیں گے۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فاروق نائیک اور سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کی تقریر کے بعد نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے مائیک سنبھالا تو محفل کشت زعفران کا منظر پیش کرنے لگی اور اداس چہرے کھلکھلا اُٹھے ۔انہوں نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو الوداع کہتے ہوئے ملے جلے جذ بات ہیں ،ایک طرف آپ کے جدا ہونے کا افسوس ہے کیونکہ آپ کے زبردست مزاح کی کمی ہمیں شدت سے محسوس ہوگی ۔آپ کی برجستگی (Abruptness) جس نے ہمیں ہمیشہ ہر دم حالت جنگ میں رکھا ۔جسٹس آفریدی نے کہا کہ شاید کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگے لیکن قاضی فائز عیسیٰ نرم دل اور بہت خیال رکھنے والے انسان ہیں لیکن اگر آپ کسی وجہ سے انہیں مشتعل کردیں ،یا یوں کہیے کہ ریچھ کے ساتھ چھیڑ خانی کردیں توپھر آپ کو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی اور ماسوائے خدا کے کوئی آپ کو ان کے غیظ و غصب سے نہیں بچا سکتا۔جسٹس آفریدی نے کہا کہ انہوں نے خود ذاتی طور پر کئی بار اس ریچھ کے اشتعال کا سامنا کیا ہے اور یہ تجربہ خوشگوار نہیں رہا۔

کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر شیریں زباں جسٹس آفریدی کی تقریر مزید نقل کرنے سے قاصر ہوں بہر حال جب تقریب ختم ہونے کے بعد ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور کالم نگار ظفر محمود صاحب سے میں نے یہ کہا کہ آج اس تقریر نے جسٹس ملک محمد رستم کیانی کی یاد دلادی تو انہوںنے یہ کہہ کر مزید حیران کردیا کہ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس آفریدی دونوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اردو میں تقریر کی ۔اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا ،ان کا بھی شکریہ ادا کیا جو اس تقریب میں موجود نہیں تھے ۔

قاضی اب ماضی ہوچکے اور ان کے کردار کو تاریخ زیر بحث لائے گی ۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ رہتی دنیا تک ان کے قصیدے لکھے جائیں گے لیکن جب اس نام نہاد انقلاب کا طوفان تھم جائے گا،کپتان کے عطا کردہ سیاسی شعور کی گرد بیٹھ جائے گی،ان کے ہم عصر جج صاحبان سے ان کا موازنہ کیا جائے گا تو احساس ہوگا کہ قاضی فائز عیسیٰ کتنے درویش صفت چیف جسٹس تھے۔

تازہ ترین