• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں پیر کو عدالت کی کارکردگی بہتر بنانے اور فوجداری اور دیوانی مقدمات تیزی سے نمٹانے کیلئے کئی ٹھوس اور مثبت تجاویز پیش کی گئیں اور ان پر گہری سنجیدگی سے غور ہوا جو فاضل ججوں کی سوچ میں یکسانیت اور عزم میں ہم آہنگی کے مثبت اظہار کا غماز ہے۔ اجلاس میں جو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی صدارت میں منعقد ہوا ، عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں نے شرکت کی۔ سینئر ترین جج مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے جو عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں ، ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی موجودگی یقینی بنائی۔ سپریم کورٹ میں اس وقت تقریباََ 60ہزار مقدمات زیر التوا ہیں جو سائلین کیلئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اجلاس میں ان مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کیلئے مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کے تیار کردہ کیس مینجمنٹ پلان پر عملدرآمد کے فارمولے پر غور کیا گیا اور اس مقصد کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ جسٹس منصور کی تجاویز کا مقصد عدالت پر مقدمات کا بوجھ کم کرنا ہے۔ ان کی تجویز کے مطابق ابتدا میں ایک ماہ اس کے بعد تین اور آگے چل کر چھ ماہ میں دیوانی اور فوجداری مقدمات تیزی سے نمٹانے کے لئے مخصوص دواور تین رکنی بنچوں کو تفویض کرنے کا پروگرام ہے ۔ چیف جسٹس نے اجلاس میں شرکت پر تمام ججوں کا شکریہ ادا کیا اور سینئر ترین جج کے تجویز کردہ کیس مینجمنٹ پلان کے مکمل نفاذ کے ساتھ مقررہ اہداف کے حصول کے عزم کا اظہار کیا۔ اجلاس کے بعد عدالت عظمیٰ کے ترجمان نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ زیر التوا مقدمات کی شنوائی کیلئے معیار مقرر کرنے اور تمام اقسام کے مقدموں کے موثر انتظام کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جس سے کیس مینجمنٹ پلان پر عملدرآمد میں شفافیت اور تیزی آئے گی۔ فاضل ججوں نے عدالتی نظام میں بہتری لانے کیلئے تجاویز اور سفارشات کے علاوہ متذکرہ پلان کا جائزہ لینے کیلئے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی غرض سے اپنی رائے پیش کی۔ اجلاس میں پیش کی جانے والی تجاویز اور بحث کا مقصد عدالت عظمیٰ کی کارکردگی بہتر بنا کر زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کرنا اور سائلین کو انصاف فراہم کرنا تھا جو عدالتی تاریخ میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس سے یہ تاثر زائل ہو جاتا ہے جو کچھ عرصہ سے عدالت عظمیٰ میں تقسیم کے بارے میں پایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اس سلسلے میں پہلا قدم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت سہ رکنی جوڈیشل کمیٹی میں سینئر ترین ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کر کے اٹھایا تھا۔ نئے چیف جسٹس کی حلف برداری کے بعد عدالت عظمیٰ کے پہلے فل کورٹ اجلاس میں تمام ججوں کی شرکت ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں کے فکر و عمل میں ہم آہنگی پر دلالت کرتی ہے جو عدل و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے قابل ستائش اور ملک کے روشن مستقبل کی علامت ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کا اگلا اجلاس دو دسمبر کو طلب کیا ہے جس میں مزید پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ایڈمنسٹریٹو ججوں کا اجلاس سات نومبر کو بلا لیا ہے جس میں ان عدالتوں کی پراگریس رپورٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے اگلے روز سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی ہو گا۔ یہ سارے اقدامات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ملک کے عدالتی نظام میں تبدیلی آ رہی ہے جو مثبت اور مستحسن ہے۔

تازہ ترین