وہ نیم شب کا عمل تھا۔ اچانک زور دار دھماکے کی آواز سے آنکھ کھلی، بالکل ایسے محسوس ہواکہ گھرکی دیوار پر حملہ ہوا ہے، ادھر ادھر دیکھا، تہران کی پرسکون زندگی میں یہ ایک خلاف معمول بات تھی۔ جولوگ صورت حال کی نزاکت کا اندازہ رکھتے تھے وہ ان آوازوں سے سمجھ گئے کہ ’’جس کا دھڑکا تھا بالآخر وہ گھڑی بھی آ گئی‘‘ ...بہت دنوں سے تہران میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ اسرائیل کا حملہ بس ہونے ہی والا ہے، بعض اطراف سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ گھروں میں جمع کر لیا جائے کہ حملے کی صورت میں اشیائے ضروریہ کا فقدان ہونے والا ہے لیکن لوگ ایسی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ اب جبکہ باقاعدہ فضائی حملے کی آوازوں سے آنکھ کھل گئی تو وہ لوگ جو کسی نہ کسی ذمہ داری سے منسلک تھے رات ہی کو اٹھ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کی جانب روانہ ہو گئے لیکن لوگوں کی اکثریت نے فارسی شاعر سرمد کی ہدایت پر عمل کیا جس نے کہا تھا کہ ؎
شوری شدو ازخواب عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شب ِفتنہ غنودیم
یعنی شوراٹھا اور ہم گہری نیند سے بیدار ہو گئے، یہ دیکھتے ہوئے کہ ابھی تو شب فتنہ باقی ہے ہم نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور عالم خواب میں چلے گئے ۔صبح ہوتے ہی ٹیلی فون پر پریشانی کے پیغامات کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ اہل وطن اور عزیز و اقارب پریشان تھے، رات ڈھائی بجے اسرائیل نے تہران اور ایران کے دوسرے دوشہروں خوزستان اور ایلام پر فضائی حملہ کر دیا تھا۔ حملوں کا سلسلہ رات ڈھائی بجے سے صبح پانچ بجے تک جاری رہا۔ ایرانی میڈیا نے اسے ’’حرکت شرورانہ نیمئہ شب ِشنبہ‘‘ یعنی ’’ہفتے کی شب آدھی رات کو کی گئی شر انگیزی‘‘ قرار دیا، اس بزدلانہ حملے کو ایران نے بروقت جوابی کارروائی کر کے ناکام بنا دیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے ایران میں بیس اہداف کو نشانہ بنایا لیکن ایران نے کہا ہے کہ یہ دعوی غیرحقیقی ہے اور محض نفسیاتی اثر ڈالنے کیلئے کیا گیا ہے۔ ایران کے بڑے انگریزی اخبار ’’تہران ٹائمز‘‘ نے اس حملے کو ’’قابل رحم اور شرمناک ‘‘(Pathetic and Embarrassing)قرار دیا یہی بات کیہان انٹرنیشنل نے ’’حملہ اسرائیل بسیار شرم آور بود‘‘ کے الفاظ میں لکھی۔ اسی اخبارکے مطابق ’موش زائید۔ نوبت پاسخ و یر انگر ایران است‘‘ اس حملے سے چوہا پیدا ہو گیا، اب ایران کی جانب سے تباہ کن ردِعمل کی باری ہے۔ رہبر انقلاب کی جانب سے اس حملے پر ردِعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’صہیونی حکومت کو ایرانی قوم کی طاقت اور ارادے کو سمجھناچاہیے‘‘
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب کو یہ حملہ ہوا۔ ہفتے کی صبح دانشگاہ تہران کے دانشکدہ ادبیات وعلوم انسانی میں ہماری ایک میٹنگ تھی۔ میں نے صبح سویرے میسج کر کے یونیورسٹی سے دریافت کیا کہ اب میٹنگ کا کیا ہو گا؟ جواب ملا کہ میٹنگ حسب ِپروگرام منعقد ہو گی۔ مجھے وہ قومیں اور وہ لوگ یاد آئے جو ذرا ساز کام ہو جانے پر پروگرام منسوخ کر دیا کرتے ہیں۔ یہاں ایک بیرونی طاقت نے ملک پر حملہ کر دیا ہے، اور حملہ بھی اسی شہر پر ہوا ہے جس میں یہ میٹنگ ہونا تھی اور پھر بھی میٹنگ حسب پروگرام ہو گی، بس یوں سمجھ لیں کہ حملے کی تکمیل اور میٹنگ کے انعقاد میں صرف چھ گھنٹے کا فاصلہ تھا۔
میں تیار ہو کر یونیورسٹی کیلئے روانہ ہوا۔ میں نے تنہا سفر کرنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ میں رات کو ہونے والے حملے پر معاشرے کا ردعمل جان سکوں۔ میری رہائش سے تہران یونیورسٹی کم و بیش بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن تہران کی ٹریفک میں یہ راستہ ایک سے دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور میں شہرکے بڑے حصے سے گزر کر یونیورسٹی پہنچتا ہوں، یوں بھی تہران یونیورسٹی موجودہ تہران کے قلب میں واقع ہے۔ میں باہر نکلا تو زندگی معمول کے مطابق تھی، دیوار کے ساتھ بیٹھا ایک کہن سال شخص اپنا وائلن بجانے کیلئے اس کا بیگ کھول رہا تھا، لوگ اپنی اپنی منزلوں کی سمت جانے کیلئے بسوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ راستے میں مسافروں کا گویا اس موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ جن اصحاب سے گفتگو ہوئی انھوں نے تہران کے ان حصوں کی نشان دہی کی جہاں جہاں حملہ ہوا تھا۔ ان کے لہجے میں کوئی تشویش نہیں تھی،میں تمام راستہ لوگوں کے چہرے دیکھتا رہا، وہی روزانہ جیسا اعتماد اور شائستگی برقرار تھی ’’انقلاب‘‘ پہنچ کر بھی روزانہ کے مقابلے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔ میدانِ انقلاب اس چوک کو کہا جاتا ہے جہاں1979 میں امام خمینی کا طیارہ اترا تھا۔ وہاں ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کی گئی اور اس چوک کی مناسبت سے وہ ساری سڑک انقلاب یا خیابان انقلاب کہلاتی ہے۔ یہ تہران کی خوب صورت اور مصروف ترین سڑکوں میں سے ہے ۔اسی سڑک پر تہران یونیورسٹی کا صدر دروازہ ہے۔ میں یونیورسٹی جاتے ہوئے اسی سڑک سے گزرتا ہوں اور شارع شونزدہ آذر سے اپنی فیکلٹی کی جانب مڑ جاتا ہوں۔ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو رہبر انقلاب کے ایک قول اور ایک آیت قرآنی پر مبنی بینرز نے استقبال کیا۔ رہبر انقلاب کا قول ہے کہ ’’مزاحمت کا خیال کسی ملک کاسب سے مضبوط ہتھیار ہوتا ہے‘‘ اور آیت قرآنی کا مضمون ہے کہ ’’جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور اللہ کے راستے سے روکا ان کے اعمال ضائع کر دیے گئے‘‘ یونیورسٹی میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا،بس طلبا و طالبات کی تعداد روزانہ کے مقابلے میں کم دکھائی دی۔ میٹنگ واقعی حسب پروگرام منعقد ہوئی۔ احباب نے ہنسی مذاق میں بیتی ہوئی شب کے اپنے اپنے تجربے بیان کیے گویا یہ کوئی حملہ نہیں ایک لطف انگیز واقعہ تھا۔ حملے کے کچھ ہی دیر بعد اسٹاک مارکیٹ بحال ہو گئی اور ڈالر کاریٹ خلاف توقع گر گیا۔ ایک یہودی صحافی مسٹر موشے نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ اس حملے سے ثابت ہو گیا کہ ایران کا دفاع مضبوط ہے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایرانی قوم اس احمقانہ حملے کابے خوفی اور دانشمندی سے جواب دے گی۔ انھوں نے ان فوجیوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا جنھوں نے اس حملے میں وطن کا دفاع کرتے ہوئے مادر وطن پر اپنی جانیں نثار کیں، ایران میں انھیں شہدائے امنیت قرار دیا گیا ہے۔
میں نے اس حملے کے حوالے سے ’’دیوان حافظ‘‘ کھولا اور اس واقعے پرعارف شیراز کا تبصرہ جاننے کی خواہش ظاہر کی تو جواب ملاکہ ؎
گرچہ بی سامان نمایم کارما سہلش مبین
کاندرین کشور گدائی رشک سلطانی بود
اگرچہ میں بے سر و سامان دکھائی دیتا ہوں لیکن میرے کام کو آسان نہ سمجھ کہ اس ملک میں گدائی بھی ایسی ہے کہ جس پر بادشاہ رشک کرتے ہوں۔ میں نے یونیورسٹی کی میٹنگ میں یہ شعر سنایا اور سب نے اسے فال نیک قرار دیا۔