میں انہیں سیّد محمد کاظم کہتا تو فوراً میری اصلاح کرتے ’’میں اپنے نام کے ساتھ سیّد نہیں لکھتا۔‘‘ بہت ہی شریف آدمی تھے ،اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے بھی ۔ بہت بڑے عالم تھے ،اور بڑے عالموں کی طرح منکسرالمزاج بھی ۔ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے ۔محفل باز نہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی ہو تے تھے ۔البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے۔ جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر منگل کو گھر سے نکلتے ۔ پہلا پڑائوگارڈن ٹائون میں مشعل کا دفتر ہو تا ۔ گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہاں بیٹھتے۔ نہایت بے تکلفی سے ہر موضوع پر باتیں ہو تیں ۔اردو ادب ، عربی ادب، انگریزی ادب ،اسلام کی فکری اور علمی تاریخ، نئی اور پرانی کتابیںاور موسیقی۔ہاں،موسیقی بھی مغرب کی کلاسیکی موسیقی ۔ شایدمغرب کی کلاسیکی موسیقی کا چسکا انہیں اپنے جرمنی کے قیام میں لگا تھا ۔ لیکن وہ اس موسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال مصطفےٰ کا ذکر کرتے اور افسردہ ہو جا تے ۔ کہتے اقبال مصطفےٰ کی پر اسرار موت کے بعدان کے ساتھ موتزارٹ اور بیتھو ون سننے والا کو ئی نہیں رہا ۔ مشعل سے اٹھتے توفیروز پور روڈ پر سید بھائیز کے ضمیر احمد خاں کے پاس چلے جا تے ۔ضمیر احمد خاں سے واپڈا کے زمانے کی دوستی تھی ۔ واپڈا کے ہی ایک اور ریٹائرڈ انجینئر جمیل صاحب کے پاس بھی ہفتے میںایک بار ضرور جاتے۔ کہتے جمیل صاحب کو کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ میں ان کے لئے کتابیں لے کر جا تا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب حیات تھے تو ہم ہفتے دو ہفتے میں مشعل سے اٹھ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر چلے جا تے ۔وہاں بھی ادب اور کتابیں ۔
لیکن یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب وہ واپڈا سے ریٹائر ہو گئے تھے ۔ اس سے پہلے تو قریب قریب ہر شام گلبرگ میںانجینئر ہاشم خاں کے فلیٹ میں محفل جمتی تھی۔ شہر کی کون ایسی نامور شخصیت ہے جو اس فلیٹ پر جمع نہیں ہوتی تھی ۔ وہاں بھی کتابوںاور موسیقی کی باتیں ہوتیں۔ جب اسلامی تاریخ یا عربی ادب پر بات ہوتی تو سب کاظم صا حب سے ہی رجوع کرتے ۔ اپنی طرز کے منفرد شاعر اور ادیب صلاح الدین محمود بھی واپڈا میں انجینئر تھے ۔ مگر ان سے کاظم صا حب کی گہری دوستی اسی فلیٹ میں ہوئی ۔ اور صلاح الدین محمود کے اشاعتی ادارے نقش اوّل کتاب گھر نے ہی ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ شائع کیا ۔پہلی بار اردو قاری کو اخوان الصفا ،معتزلہ اور الف لیلہ کے بارے میں ایسی باتیں پڑھنے کو ملیں جن سے وہ بالکل ہی لا علم تھے۔ خلیل جبران ہمارے ہاں رومانوی حد تک مقبول تھا ۔ کاظم صاحب نے اپنے مضمون میں اس کی تحریروں کا جائزہ لے کر اس کی رومانویت کا خول بھی اتارا۔واپڈا میں جہاں وہ چیف انجینئر اور بین الاقوامی معاہدوں کے انچارج تھے وہاں بھی ان کا کمرہ فرصت کے اوقات میں علمی اور ادبی تکیہ بن جاتا تھا ۔ کاظم صاحب نے وہاں عربی پڑھانا شرع کی تھی ۔ ان کے شاگردوں میںصلاح الدین محمود، خالد اختر، رشید ملک اور واپڈا کے چند اور اصحاب تھے۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے عربی کا قاعدہ بھی لکھا۔عربی سیکھنے کے لئے یہ بہترین قاعدہ ہے۔حالانکہ وہ انجینئر تھے۔ انجینئرنگ کی ڈگری انہوں نے مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی تھی مگر عربی سے ایسا شغف تھا کہ یہ زبان انہوں نے اپنے شوق سے پڑھی ۔اوراتنی مہارت حاصل کر لی کہ1966 میں جب انہوں نے پنجاپ یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا تو اس سے پہلے وہ چند کتابوں اور رسالوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کر چکے تھے۔ ان کے یہ ترجمے عرب ملکوں میں شائع ہو ئے ۔ عرب رسالوں میں ان کے مضامین بھی چھپے۔
لیکن ان کے علمی تبحر کا اندازہ تو قاسمی صاحب نے لگایا تھا ۔ اور اس کا اعتراف کاظم صاحب خود بھی کرتے تھے ۔ قاسمی صاحب نے ہی سب سے پہلے ’’فنون ‘‘ میں ان کے مضامین چھاپنا شروع کئے۔بلکہ قاسمی صاحب نے فرمائش کر کر کے ان سے مضامین لکھوائے۔ ان مضامین سے اردو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوا کہ ہمارے درمیان ایک ایسا نابغہء روزگار بھی موجود ہے جو عربی کے قدیم اور جدید ادب پر نہایت ہی گہری نظر رکھتا ہے ۔اور جب قاسمی صاحب نے ان سے کتابوں پر تبصرے کرائے تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے اتنی غیر جا نب داری اور لاتعلقی کے ساتھ شاید ہی کسی نے تبصرے لکھے ہوں۔فنون میںایسے تبصرے کرنے والے دو تھے، محمد کا ظم اورمحمد خالد اختر، دونوں کا تعلق بہاولپور سے تھا ۔اور دونوں ہی بہت گہرے دوست تھے ۔ قاسمی صاحب نے ہی ان سے جرمنی کا سفر نامہ بھی لکھوایا ۔ یہ سفر نامہ ہمارے مروجہ سفر ناموں سے اتنا مختلف ہے کہ ہم اسے سفر ناموں کی ایک اور ہی قسم میں شمار کر سکتے ہیں ۔ ایک بہت ہی پڑھے لکھے اور صاحب نظر آدمی کا سلیس زبان میں سفر نامہ ۔جب تک قاسمی صاحب حیات تھے کاظم صاحب نے فنون میں ہی لکھا۔ قاسمی صاحب کے بعد انہوں نے رسالوں میں لکھنا بند ہی کر دیاتھا ۔ اور کتا بوں کی طرف راغب ہو گئے تھے ۔آ خر،ہم دوستوں نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے رسالہ الحمرا میں اپنی علی گڑھ کی یادیںلکھنا شروع کی تھیں جو نامکمل رہ گئیں۔ انہوں نے طبع زاد کتابوں کے علاوہ مشعل کے لئے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی دو کتابوں ’’اسلام اور جدیدیت ‘‘ اور ’’ قرآن کے بنیادی مو ضوعات ‘‘ کا ترجمہ بھی کیا ۔ پھر مشعل کے لئے ہی’’ مسلم فکر و فلسفہ ۔عہد بعہد‘‘ جیسی کتاب بھی لکھی جس میں قدیم مسلم فلاسفہ سے لے کر اقبال کی فکراو ر ان کے فلسفے کاتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔جب انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ شروع کیا تو دوسرے کاموں سے بالکل ہی منہ موڑ لیا ۔ اور ساری توجہ اس ترجمے پر مرکوز کر دی۔یہ ترجمہ آج کی سلیس اور رواں زبان میں کیا گیا ہے ۔ہرصفحے پر دوکالم ہیں۔ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ۔یہ ترجمہ اس حالت میں کیا جب شوگر نے انہیں بالکل ہی کمزور کر دیا تھا ۔اب ان کا گھر سے نکلنا ہی بند ہو گیا تھا ۔اب ہماری بات ٹیلی فون پر ہی ہوتی تھی ۔یا پھر میں اور اکرم االلہ ان کے گھر چلے جاتے تھے ۔ دو مہینے پہلے میں اور اکرام اللہ ان سے ملنے گئے تو انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئے ۔ کمزوراتنے ہو گئے تھے کہ بات کر نے میں بھی دشواری محسوس ہو تی تھی۔ مگر کتابوں سے شغف کا عالم وہی تھا۔انہوں نے محمودالحسن سے خوشونت سنگھ کا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘لا نے کی فرمائش کی تھی ۔بیماری کی اطلاع ملی تو میں، اکرام اللہ اور محمود الحسن اسپتال پہنچے۔تاروں میں جکڑے ہوئے بستر پر لیٹے تھے۔ ہمیں پہچان لیا ۔ اوراپنے بڑے بیٹے طیب سے ، جو امریکہ سے فورا آگیاتھا، ہمارا تعارف کرایا ۔محمود الحسن نے کہا میں آپ کے لئے کتابیں لے آیا ہوں ۔آپ گھر جائیں گے توپہنچا دوں گا ۔ بہت خوش ہوئے ۔ مگر افسوس یہ کتابیں پہنچانے کا موقع نہیں آیا ۔ ایک دن پہلے تک ڈاکٹر تسلی دے رہے تھے کہ کل گھر لے جانا۔اور ہم بھی پر امید تھے ۔مگر اچانک نمونیہ ہوا اور وہ ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور خوش باش شخص ہم میں نہ رہا۔ایسی عالم و فاضل شخصیت کی موت پر ہی تو کہا جا تا ہے ۔ ’’ موت العالم موت العالم‘‘۔عالم کی موت ایک زمانے کی موت ہو تی ہے ۔کاظم صاحب کے ساتھ ایک عالم اورایک زمانہ ختم ہو گیا ۔اور میں ایک بے لوث دوست اور ایک مشفق استاد سے محروم ہو گیا ۔ جب بھی مجھے کوئی علمی الجھن ہو تی تو میں انہی سے تورجوع کیا کرتا تھا۔