پچھلے کالم میں اس جانب توجہ مبذول کروائی تھی کہ دنیا میں ہونے والی دو بڑی جنگوں کے باعث وبائی بیماریاں تمام ممالک میں پھیل چکی ہیں پھر اسی ہفتے آلودہ شہروں کی رینکنگ سامنے آئی تو پتہ چلا کہ زیادہ فضائی آلودگی کے حامل شہر جنوبی ایشیا میں ہیں، یہ بھی پتہ چلا کہ لاہور، دہلی اور ممبئی سب سے آگے ہیں، فضائی آلودگی کے سبب یقیناً بیماریاں جنم لیتی ہیں اور ہماری نشاندہی کے بعد تو پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ’’جب سے لاہور آئی ہوں، فضائی آلودگی کی وجہ سے گلے کا 8 ماہ میں ساتواں اینٹی بائیوٹک کورس کر رہی ہوں‘‘ اسمبلی میں مریم اورنگزیب کے اس بیان پر لیگی اراکین نے تالیاں بجانا شروع کیں تو مریم اورنگزیب کہنے لگیں ’’یہ تالیاں بجانے والی بات نہیں ہے‘‘۔ تالیاں بجانے کا عمل بتاتا ہے کہ حکومتی پارٹی کے اراکین کتنے سمجھدار ہیں اور وہ اڈیالہ جیل کے قیدی کی باتوں کو کس طرح حقیقت کا روپ دے رہے ہیں، ویسے تو تین خواتین کی تین باتیں ہی کافی تھیں، جن میں سائفر، فائبر اور پرفارمنس... شامل ہیں۔ پاکستان کا بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں اہل لوگوں کو تو جگہ ملتی نہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر نا اہل براجمان ہیں، ظاہر ہے اس کے پس پردہ بددیانتی، چوری، ہیرا پھیری، نا انصافی، اقربا پروری اور حرام خوری شامل ہیں۔ کرپشن کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھنے والے کئی افراد کا یہ خیال ہے کہ کرپٹ افراد کیلئے حرام خور کا لفظ استعمال کیا جائے اور کرپٹ افراد کو ہر جگہ حرام خور ہی پکارا جائے تاکہ انہیں حرام خوری کرتے وقت شاید کبھی یہ احساس ہوجائے کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ ابھی ہمارے ملک میں ایک رونا رویا جا رہا ہے کہ بہت سے ذہین نوجوان دوسرے ملکوں میں جا بسے ہیں اور بار بار کہا جاتا ہے کہ’’برین ڈرین‘‘ ہو رہا ہے، ذہین نوجوان بیچارے کیا کریں؟ ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا ہمارے ملک میں ان ذہین نوجوانوں کے لئے روزگار کے دروازے کھلے ہیں؟ کیا ان کی قابلیت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے؟ ان ذہین نوجوانوں کے راستے کہیں کوٹہ سسٹم روک لیتا ہے، کہیں اقربا پروری تو کہیں دولت کی دیوی حائل ہوجاتی ہے اور کہیں رشوت کے ساتھ سفارش آڑے آ جاتی ہے، اسی لئے پاکستان سے ذہین نوجوان باہر جا رہے ہیں۔ گزشتہ دو اڑھائی سال میں باہر جانے والوں کی تعداد میں اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ ملک میں جاری پالیسیوں سے اختلاف ہے کیونکہ ہمارے نوجوان کو روزگار نہ ملنے کے ساتھ ساتھ آئین میں درج انسانی حقوق بھی نہیں ملتے، تشدد اور مار دھاڑ کی پالیسی نے نوجوانوں کو بد دل کر دیا ہے ورنہ کس کا جی چاہتا ہے کہ اپنا گھر چھوڑ کے دیس سے کہیں دور چلا جائے۔ نظام کی خرابیوں نے وطن پرستوں کو وطن سے دور کر دیا ہے، اس کا احساس مجھے ہیوسٹن میں اس وقت ہوا جب میرے سامنے بیٹھے ایک کامیاب کاروباری نوجوان نے یہ کہا کہ’’پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ لڑتے نہیں ہیں، وہ سائیڈ پر ہو جاتے ہیں، جیسے ہم سائیڈ پر ہو گئے‘‘۔ آپ کو پتہ ہے بہت سے پاکستانی نوجوان جنہیں ویزا نہیں ملتا، وہ ڈنکی لگا کر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک اور بات سوچنے کی ہے کہ برسوں پہلے جو لوگ مزدوریاں کرنے امریکا جیسے ملک میں آئے تھے، وطن عزیز میں تو وہ نکمے تھے، اگر وہ اتنے ہی نکمے تھے تو یہاں آ کر ارب پتی کیسے بن گئے؟ ان کی کامیاب زندگیاں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ نہ وہ نا اہل تھے اور نہ ہی نکمے۔ اگرچہ ہیوسٹن میں جنگ جیو کے آصف علی بھٹی، غضنفر ہاشمی اور ہارون مغل سے ملاقاتیں ہوئیں مگر یادگار ملاقات ڈاکٹر آصف قدیر سے ہوئی، وہ کہنے لگے کہ’’آپ ایک مہم شروع کریں کہ سیاسی پارٹیاں کرپٹ افراد کی حوصلہ شکنی کریں اور انہیں سیاسی پارٹیوں سے نکال دیں‘‘۔ میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب! سیاسی پارٹیاں کرپٹ افراد کو کیسے نکالیں گی کیونکہ پاکستان میں اکثر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہی کرپٹ ہیں، جو کرپشن کے خلاف باتیں کرتا ہے وہ تو جیل میں ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب بولے ’’جس دن پاکستان میں کھانا کھاتے وقت بچوں نے ماؤں سے یہ سوال کیا کہ یہ کھانا حرام کمائی سے بنا ہے یا حلال سے؟ اس دن سے پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ شروع ہو جائے گا، جب بچے اور مائیں حرام خوری کی حوصلہ شکنی کریں گے تو کرپشن کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا‘‘۔ اب ہمارے ملک میں نئی نسل لوگوں کو کردار کے پیمانے میں تولتی ہے اور کسی کے کردار کے باعث اس سے محبت یا نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ ہماری نوجوان نسل نے اپنے سے پہلے والی نسل کو بھی شعور کی چند سیڑھیوں پر چڑھا دیا ہے، اب پاکستانیوں کی اکثریت کردار کے پل پر وصی شاہ کے یہ اشعار سناتی ہے کہ
دھمکیوں سے تو محبت نہیں کروا سکتے
تم ڈرا سکتے ہو عزت نہیں کروا سکتے
چاند کا نام کتابوں میں اندھیرا رکھ دو
پھر بھی تبدیل حقیقت نہیں کروا سکتے
تم ہتھیلی پہ مرا سر تو اٹھا سکتے ہو
ہاں مگر ہاتھ پہ بیعت نہیں کروا سکتے