مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بلاشبہ، باپ ایک سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے، جس کی گھنی چھائوں میں اولاد پرورش پاتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ باپ کی محبّت ایک ایسا بحرِ بیکراں ہے کہ جس کو الفاظ میں سمونا قطعاً ناممکن ہے۔ باپ ایک ایسی ہستی ہے، جو انتہائی بے لوث ہو کر اپنی اولاد کے لیے دن رات تگ و دو کرتی ہے اور اُس کی ان ہی کاوشوں کی بدولت ایک پوری نسل کی کشتی پار لگتی ہے۔ میرے والد ِمحترم، باؤ محمد سلیم مرحوم بھی میرے لیے ایک سائبان کی حیثیت رکھتے تھے۔
انھوں نے ہر مشکل، آزمائش کی گھڑی میں مجھے چھتنارسایہ فراہم کیا۔ وہ یکم اگست1927ءکو پیدا ہوئے۔ گو ان کے دادا وسیع اراضی کے مالک تھے، مگر ان کے والد یعنی ہمارے دادا کو جائیداد میں سے ایک تنکا تک نہ ملا۔ سو،زندگی کا ابتدائی حصّہ غربت میں گزرا۔ اسی سبب ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ حصولِ تعلیم کی بجائے کوئی ہُنر سیکھیں، مگر میرے والد کو پڑھنے لکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، لہٰذا انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد1946ء میں ریلوے میں بطورٹکٹ کلکٹر بھرتی ہوگئے۔ اُن کی پہلی تقرری دہلی (ہندوستان) میں ہوئی۔
بہرحال، قیام ِپاکستان کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں بھی ملازمت کے دوران تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بی۔اے کے بعد منشی فاضل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ان کا حافظہ بلا کا تیز تھا، وہ اپنی ذات میں گویا عِلم کا سمندر تھے۔ اُنھیں انگریزی، فارسی، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ نیز، وہ انتہائی ایمان دار ، فرض شناس اوراللہ پر بھروسا رکھنے والے انسان تھے۔ اپنی محنت اور لگن کے بَل بُوتے پر ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے ہمارے لیے بہت کچھ کیا۔
1982ء میں اُن کا انتقال ہوا، لیکن وہ ہمارے گزربسر کے لیے مکان اور زرعی اراضی کی شکل میں اتنا کچھ چھوڑ گئے کہ اُن کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ہمیں کبھی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہاں مگر یہ احساس ضرور ہوا کہ اُن کے بغیر ہماری زندگی کتنی اُدھوری ہے۔ اُن سے جدائی کو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود مَیں، آج بھی اُن کے پاکیزہ کردار کی مہک، اپنے چہارسُو محسوس کرتا ہوں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے والد بائو محمد سلیم کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)