• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل کے تناظر میں بجلی کی بڑھنے والی طلب کو پورا کرنے کیلئے پاکستان بعض منصوبوں پر گامزن ہےاور یہ تخمینے لگائےجاچکے ہیں کہ2030ءتک اس کی پیداواراورطلب میںتوازن آجائے گا، تاہم ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس کی نفی کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ موسم کی شدت بڑھنے سے آنے والے وقت میںپاکستان میں توانائی کی طلب غیرمعمولی اضافے کو ظاہرکررہی ہے۔ بینک کی رپورٹ کے مطابق آئندہ دس برس میں بجلی کی سالانہ طلب 10فیصد کے حساب سے بڑھ سکتی ہےجبکہ 2050ءتک یہ20فیصد پر پہنچ جائے گی۔دوسری طرف ماہرین کے مطابق پاکستان کو توانائی کے نظام میں اسٹرکچرل مسائل درپیش ہیں ،جن میں زیادہ پیداواری لاگت،کمزور ترسیلی نظام،لائن لاسز اور بڑے پیمانے پر پائی جانے والی کرپشن شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں بجلی کی پیداواری استعداد جو ایک دہائی پیشتر اوسطاًسولہ سترہ ہزار میگاواٹ تھی ،اس وقت 37ہزار تک تو پہنچ گئی ہےلیکن آمدن کے مقابلے میںزیادہ اخراجات کے پیش نظر وزارت توانائی اور تقسیم کار کمپنیاں صارفین کو اصل حیثیت سے کئی گنا زیادہ بل بھیجنے پر مجبورہیں۔اقتصادی ماہرین اس صورتحال سے چھٹکارا پانے کے دوطریقے بتاتے ہیں،یا تو بجلی کا تیاری سمیت سارا کام حکومت اپنے ذمہ لے یا اسے مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے، تاہم ساری توجہ سستی بجلی پیدا کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے۔پاکستان کے پاس سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے ہائیڈرل،مقامی کوئلہ،دھوپ،ہوا اور جوہری توانائی کی صورت میں کثیرالجہتی وسائل ہیں۔آنے والے موسمیاتی چیلنجوں کا اظہارآج کی بات نہیں،ایسا گزشتہ دودہائیوں سے کیا جارہا ہے،ان سے نمٹنے کیلئے متعلقہ شعبوں کو سرجوڑ لینے چاہئیں ۔ محض بجلی کی مطلوبہ پیداوار پوری کرنا مقصدنہیں بلکہ اس کا عام آدمی کی پہنچ تک سستا ہونا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین