• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیات کُش یااینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر محتاط استعمال سے بیماریوں کے خلاف ادویات کا غیر موثر ہوتے چلے جانا آج کی دنیا میں انسانی صحت کے حوالے سے ایک فوری توجہ طلب مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق2019ءمیں دنیا میں 12لاکھ 70ہزار اموات ایسے انفیکشن سے ہوئیں جن پر دواؤں کا اثر نہیں ہوا۔ حیات کش ادویات وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کی جارہی ہیں جبکہ یہ وائرس نہیں،بیکٹیریا کو مارتی ہیں اور نزلہ، زکام، عام کھانسی اور بخار میں بالکل کام نہیں کرتیں۔ غیر ضروری استعمال سے اینٹی بائیو ٹک غیر موثر ہو جاتی ہیں اور حقیقی ضرورت کے وقت بھی کام نہیں کرتیں۔ماہرین کے مطابق اگر کسی انفیکشن سے بخار ایک سو تین چار تک پہنچ جائے اس وقت اینٹی بائیوٹک دی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ترقی یافتہ ملکوں میں مستند ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر اینٹی بائیوٹک ادویات حاصل نہیں کی جاسکتیں ۔ تاہم ستر سے زائد ممالک میں ہونے والی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہونے والی 25 فیصد اموات کی وجہ اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال ہے۔دوا فروشوں سے حیات کش ادویات کے حصول پر پاکستان میں کوئی پابندی عائد نہ ہونے کے علاوہ خود ڈاکٹر بھی غیرضروری طور پر اینٹی بایوٹک ادویات اپنے مریضوں کیلئے بڑے پیمانے پر تجویز کرتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کو دی جانے والی مراعات ہیں۔تاہم وقت کا تقاضا ہے کہ ملک میں حیات کش ادویات کے غیرضروری استعمال پر بلاتاخیر مؤثر پابندی عائد کرکے شہریوں کی زندگیوں اور صحت کے تحفظ کا اہتمام کیا جائے اور ان دواؤں کی عام فروخت ممنوع قرار دینے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو بھی حقیقی ضرورت کے بغیر اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے سے روکا جائے۔

تازہ ترین