• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں گورے کو کالے پر فوقیت نہیں، قومیتوں اور قبیلوں کی تقسیم صرف پہچان کیلئے ہے۔ انسانیت صدیوں کا سفر طے کرکے بھی اسی نتیجے تک پہنچی ہے۔ اقوام عالم نے اقوام متحدہ کا جو چارٹر بنایا ہے اس میں بھی تمام انسانوں اور قوموں کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ تضادستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم انسانوں، قوموں اور قبیلوں کو برابر نہیں سمجھا جاتا۔ میری نظر میں ہر کسی کو اپنی قوم اور قبیلے پر فخر کا حق حاصل ہے اسے اپنے قبیلے یا قوم سے محبت کا پورا استحقاق بھی ہے، بُری بات یہ ہے کہ دوسری قومیتوں اور قبیلوں کو حقیر گردانا جائے اور ان سے نفرت اور تعصب کا رویہ اپنایا جائے۔ ذاتی طور پر مجھے احساس ہے کہ پنجابی جرنیلوں، ججوں اور جغادری سیاستدانوں نے چھوٹے صوبوں کا استحصال کیا ہے اور انکی بہت سی محرومیوں اور پسماندگی کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ احساسِ گناہ کے زیراثر سیاست کے اس ادنیٰ طالبعلم نے تمام صوبوں کے قوم پرست رہنمائوں سے 1997ء سے انٹرویو شروع کئے، وہاں کی محرومیوں اور ان کیساتھ رکھے جانیوالے ناروا سلوک پر گاہےگاہے اپنی نحیف آواز بھی بلند کی۔ جب بھی موقع ملا سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کیساتھ برابری بلکہ ترجیحی سلوک کرنے کی بات بھی کی ہے۔ اپنی 40سالہ صحافت میں ہمیشہ کوشش کی کہ کسی کو اسکی قوم، قبیلے، مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تعصب کی نظر سے نہ دیکھوں۔ اپنے اس ذاتی رویے کا ذکر مجبوری سے کرنا پڑ رہا ہے وگرنہ یہ تو ہر ایک کا انسانی فرض ہے، یہ کوئی کارنامہ نہیں کہ اسکا بیان کیا جائے مگر چونکہ ’’مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات ‘‘ کے مصداق آج حرفِ شکایت زبان پر لانا ہے کہ ہمارے بلوچ، سندھی اور پختون بھائیوں نے یہ ریت اپنا لی ہے کہ پنجابیوں کو بزدل، ظالم، استحصالی اور موقع پرست کہا جائے۔ یہ رسم بن گئی ہے کہ پختون تو بڑے بہادر ہیں لیکن پنجابی بزدل ہیں، بلوچ تو قابل فخر روایات کے حامل ہیں جبکہ پنجابی تو شکست خوردہ اور خوشامدی ہیں۔ سندھی بھائی بھی پنجابیوں کو نہیں بخشتے اور تضادستان کی ہر غلطی کا ذمہ دار انہیں ہی قرار دیتے ہیں۔ انہی رویوں کا نتیجہ ہے کہ ایک زمانے میں کراچی میں پنجابیوں کو چن چن کر مارا گیا، بہت سوں کو اندرون سندھ سے نکال دیا گیا۔ اب بلوچستان میں یہ افسوسناک لہر جاری ہے کہ لڑائی ریاست سے ہو رہی ہے اور بدلہ معصوم، مزدور اور غریب پنجابیوں سے لیا جا رہا ہے، کیا آج تک کسی مہاجر، سندھی یا بلوچ کو پنجاب میں کسی نے بری نظر سے دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو پھر غریب پنجابیوں سے یہ بدلہ کیوں؟ اگر فوج صرف پنجاب کی ہے تو پھر اس میں پشتون اور بلوچ جرنیل کیوں ترقی پاتے ہیں؟ پختونخوا میں بھی پنجاب کیخلاف نفرت عام ہے اور وہاں کوئی قومی انتہا پسند پیدا ہو گیا تو پنجابیوں کا جینا حرام ہو جائیگا حالانکہ پنجاب کے شہر اور دیہات میں ہر جگہ پشتو ن آباد ہیں اور کبھی کسی پنجابی نے انکے روزگار اور انکی خوشحالی کی طرف انگلی تک نہیں اٹھائی ۔

گزشتہ چار دہائیوں سے تمام بڑے قوم پرست رہنمائوں سے ملاقات، مکالمے اور انٹرویوز کا موقع ملا۔ خان عبدالولی خان، اجمل خٹک، عطا اللہ مینگل، رسول بخش پلیجو، ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ اور محمود اچکزئی سمیت قریباً تمام بڑے ناموں کے انٹرویوز کئے اور بعض اوقات انتہائی نامساعد حالات کے باوجود انہیں نشر یا شائع بھی کیا گیا۔ اپنے اس پس منظر کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ قوم پرست لیڈر شپ نے گو خود کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے لیکن انہوں نے بڑھتی ہوئی نفرت کو روکنے کا بھی کوئی چارہ نہیں کیا بلکہ قومی تعصبات کو پنجابیوں کا مذاق اڑا کر شہ دیتے رہے حالانکہ پنجابی بھی اتنے ہی بہادر یا بزدل ہیں جتنی باقی قومیں مگر تعصب میں پنجابیوں کو ہر ریاستی ظلم کا ذمہ دار قرار دیکر یہ نفرتیں بڑھائی گئیں اور اب اسکا نتیجہ سامنے ہے بلوچستان میں آپریشن رکنے میں نہیں آ رہا ، پختونخواہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے، سندھی بقول بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سب قوموں سے عقلمند سیاستدان ہیں اسلئے وہ جب چاہیں قومی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب چاہیں پنجاب کیخلاف شکایات کا دفتر کھول دیتے ہیں، اس پالیسی کی وجہ سے سندھ میں کوئی خانہ جنگی ،کوئی آپریشن نہیں۔

پنجابیوں کیخلاف جو الزام تواتر سے لگایا جاتا ہے اور جسے بہت سے پنجابی بھی تسلیم کر لیتے ہیں وہ ہے حملہ آوروں کیخلاف مزاحمت نہ کرنا اور بزدلی دکھانا۔ اول تو بین الاقوامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ الزام انتہائی بے بنیاد ہے، انگریز جو آدھی دنیا کے حکمران رہے انکے ملک پر جرمن اور فرانسیسی قابض رہے، جرمن خود کو سب سے بہادر سمجھتے تھے انہیں عبرتناک شکست ہوئی، جاپانی سب سے لڑاکے تھے وہ بھی ہارے، تحریری تاریخ کے مطابق پنجاب میں سب سے پہلی جنگ سکندر اعظم یونانی سے ہوئی، سکندر بلوچستان سے گزرا کوئی مزاحمت نہ ہوئی وہ ٹیکسلا پہنچا تو وہاں کے حکمران امبھی کمار نے مزاحمت کئے اور لڑے بغیر سکندر اعظم کی اطاعت کرلی، یاد رہے کہ ٹیکسلا کی ریاست میں آج کا پختونخواہ بھی شامل تھا پھر امبھی اور سکندر نے ملکر دریائے جہلم عبور کرکے پنجابی راجہ پورس پر حملہ کیا۔ پورس بہادری سے لڑا سکندر اعظم نے مصلحت یا پھر اسکی بہادری کے پیش نظر اسے دوبارہ حکمرانی دیدی، سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی کا ذکر یونان کی تاریخوں میں آج بھی موجود ہے۔ محمود غزنوی نے پنجابی حکمران اجے پال سے لڑائی میں اُسے شکست دی تو اُس نے لاہور واپس آکرندامت کے باعث سرعام خودکشی کرلی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سارے پختونخواہ اور افغانستان تک فتح کے جھنڈے گاڑے اور پھر انگریزوں کیخلاف آخری خوفناک لڑائی جنرل شیر سنگھ نے لڑی اور انگریزی فوج کو اس قدر نقصان اٹھانا پڑا کہ اسے اپنی فوج کا سربراہ تبدیل کرنا پڑ گیا۔ یہ چند واقعات پنجابیوں کو بہادر ثابت کرنے کیلئے نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کیلئے لکھے گئے کہ قومیں کبھی فتح یاب ہوتی ہیں تو کبھی شکست بھی کھا جاتی ہیں، نہ پنجابی کسی اور قوم سے بلند تر ہیں اور نہ کسی سے کم تر ہیں۔ بلوچ، سندھی اور پشتون انگریزوں کی طرف سے جھوٹی اور بے بنیاد تحقیقی کتابوں کے ذریعے سے مصنوعی ہوا بھرنے سے اپنے آپ کو عظیم سمجھنے لگے ہیں حالانکہ انگریز، نپولین اور ہٹلر سمیت جس جس سے لڑے اسے چھوٹا بنانے کی کوشش کی یہی پنجابیوں اور انکے ہیروز کیساتھ ہوا۔ کرنل سنڈیمن، اولف کیرو، ڈینزل ابٹسن اور جان اور ہیری لارنس نے پنجابیوں کو بزدل اور باقی قوموں کو بہادر قرار دیا۔ حالانکہ پنجاب پر آج تک نہ کبھی بلوچ حکمران رہے نہ سندھی، افغان اور پشتون ضرور رہے مگر یہ مقامی افغان نہ تھے مغل، لودھی اور افغان سارے شمال سے آتے رہے اور انکا مطمح نظر دہلی ہوتا تھا لاہور نہیں، اسلئے وہ پانی پت جاکر ہی لڑتے تھے، پنجاب کے خود دلی دربار سے کبھی تعلقات خوشگوار نہیں تھے، اسی لئے دُلے بھٹی پیدا ہوتے تھے۔ آخر میں عرض یہ ہے کہ ہم نے اپنے بابے کو اوپر رکھنے کے چکر میں نفرتوں کو فروغ دے لیا ہے۔ ماضی کے جھگڑوں سے نکل کر حال اور مستقبل کو سنوارنا ہو گا بلوچ ہوں یا پنجابی، پختون ہوں یا سندھی، اپنے آپ کو برتر نہ سمجھیں اور دوسروں کو برا نہ جانیں، انائوں میں مصنوعی ہوا بھرنے کی بجائے برابری اور احترام سے چلیں یہ نہ ہو کہ پنجاب میں اس نفرت کا ردعمل شروع ہو جائے۔ سٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاہد حفیظ کاردار اعدادو شمار سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ سینٹرل پنجاب ہی پورے ملک کا معاشی انجن ہے اگر انجن نے اپنے ڈبوں میں خوشحالی کی تقسیم بند کر دی تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔ پنجابیوں نے تو اپنی مادری پنجابی زبان، اپنے مقامی ہیروز اور اپنی تاریخ تک ملکی مفاد پر قربان کر دی ہے ،پنجاب سے اور کیا قربانی مانگنی ہے؟

تازہ ترین