پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے جتنے مواقع موجود ہیں اتنے شاید ہی کسی اور ملک کے پاس ہوں۔ اس کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے 76سال گزرنے کے باوجود مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئےخاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شعبے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں حکومت اور فوج کے اشتراک سے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے جو اقدامات کئے گئے ہیں اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہاں اپنا ذاتی تجربہ قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا جو مجھے گزشتہ ہفتے امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا سے آنے والے سکھ کمیونٹی کے 50رکنی وفد کی میزبانی سے حاصل ہوا۔ اس وفد میں شامل زیادہ تر سکھ افراد ناصرف امریکی شہری تھے بلکہ انہیں امریکہ میں مقیم سکھ کمیونٹی کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بزنس کمیونٹی اور حکومتی شخصیات میں بھی گہرا اثرو رسوخ حاصل ہے۔ اس وفد کے سربراہ رنجیت سنگھ کاہلوں سے دیرینہ ذاتی تعلق کی وجہ سے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ طویل عرصے سے پاکستان آ کر اپنے مذہبی و تاریخی مقامات دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن ویزوں کے اجراکے پیچیدہ طریقہ کار اور دیگر رکاوٹوں کے باعث یہ دورہ ملتوی ہوتا آ رہا تھا۔ تاہم اکتوبر کے آخری ہفتے میں جب وہ لاہور پہنچے تو ان سمیت وفد میں شامل ہر شخص کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دورے سے ان کی خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع قلعہ جمرود جبکہ پشاور میں قلعہ بالاحصار اور گردوارہ بھائ جوگا سنگھ کی یاترا کرنے اور وہاں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوئی جس پر وہ حکومت اور افواج پاکستان کے خصوصی طور پر شکر گزار تھے۔ واضح رہے کہ قلعہ جمرود فوج کے زیر انتظام ہے تاہم کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری نے خیر سگالی کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکھ وفد کو نہ صرف قلعہ جمرود دیکھنے کا موقع دیا بلکہ ان کی زبردست مہمان نوازی کر کے اس دورے کو مزید یادگار بنا دیا۔ خاص طور پر جب سکھ وفد کیلئے فرنٹیئر کور نارتھ بینڈ نے پنجابی نغموں کی دھنیں پیش کیں تو وفد کے اراکین بہت خوش ہوئے۔ سکھ وفد کے اراکین نے پنجابی نغموں کی دھنوں پر لڈی اور بھنگڑا بھی ڈالا اور اسے اپنی زندگی کا یادگار دن قرار دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قلعہ جمرود اور قلعہ بالاحصار کو سکھوں کی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اور دونوں قلعوں میں اب بھی اس دور کی تاریخی اشیاء اور نواردات کو میوزیم بنا کر محفوظ رکھا گیا ہے جسے دیکھ کر وفد کے شرکاء نے بہت سراہا۔اس دورے کی ایک اور اہم بات پنجاب پبلک لائبریری میں سکھ ہیرٹیج پر مبنی تصویری کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد تھا۔ اس موقع پر والڈ سٹی لاہور کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری میری دعوت پر خصوصی طور پر شریک ہوئے اور انہوں نے سکھ وفد کو پنجاب میں سکھ ہیرٹیج کی بحالی سے متعلق اقدامات بارے آگاہ کیا۔ وفد کے شرکاء نے سکھ ورثے کے تحفظ اور بحالی سے متعلق ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اس حوالے سے مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بعدازاں وفد کے شرکاء کو لاہور میں کینسر کیئر ہسپتال کا بھی دورہ کروایا گیا۔ وفد کے شرکاء نے کینسر کے علاج کیلئے بنائے گئے ایشیا کے اس سب سے بڑے ہسپتال کے انتظامات کو عالمی معیار کے مطابق قرار دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ انسانیت کی بھلائی کے اس کام میں وہ بھی اپنا حصہ ڈالنے کیلئے تیار ہیں۔ اس دورے کا اختتام میری رہائش گاہ پر سکھ وفد کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے سے ہوا۔ اس موقع پر میری خواہش تھی کہ انہیں لاہور کی مقامی کمیونٹی سے میل جول کا موقع مل سکے تاکہ وہ پنجاب کی مشترکہ ثقافت، میوزک، زبان اور کھانوں کے ذائقے کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے میں نے سکھ وفد کے اراکین کی گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور گرین پاکستان ٹورازم کے منیجنگ ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حسن اظہر حیات سے ملاقاتوں کا بھی اہتمام کیا تھا۔ ان ملاقاتوں کا مقصد یہ تھا کہ سکھ وفد کو اعلیٰ سرکاری حکام سے بالمشافہ ملاقات کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ مذہبی سیاحت کے فروغ میں درپیش رکاوٹوں پر کھل کر تبادلہ خیال کر سکیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران جس خوشگوار ماحول میں دو طرفہ گفتگو ہوئی اس سے مجھے پوری امید ہے کہ مستقبل میں حکومت کی طرف سے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کیلئے درپیش مشکلات کو ختم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ علاوہ ازیں سکھ وفد کے شرکاء نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ مستقبل میں مزید وفود لے کر پاکستان آئیں گے جس سے جہاں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی وہیں دوطرفہ معاشی و سیاسی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ اس سے پہلے عام طور پر امریکہ، کینیڈا، برطانیہ یا یورپی ممالک کی شہریت رکھنے والے سکھ شہریوں کو ہمیشہ اپنی حکومتوں کی جانب سے پاکستان کے سفر سے متعلق ٹریول ایڈوائزری کے سبب مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔ تاہم اس دورے سے یہ رکاوٹ کافی حد تک ختم ہونے کی توقع ہے جس کی بڑی وجہ حکومت اور فوج کے اعلیٰ حکام کی طرف سے ملنے والا مثبت ردعمل ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو میں یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مذہبی سیاحت کا شعبہ پاکستان کیلئے قیمتی زرمبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں وفد کے اراکین نے یقین دہانی کروائی کہ اگلی مرتبہ سکھ کمیونٹی کی اہم کاروباری شخصیات بھی پاکستان آئیں گی تاکہ یہاں سرمایہ کاری سے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔