سندھ ہائی کورٹ نے گلستانِ جوہر بلاک 1 کے رفاہی پلاٹس پر قبضے کے کیس میں کے ڈی اے سے 1985ء کا ماسٹر پلان طلب کر لیا۔
عدالت میں گلستان جوہر بلاک 1 کے رفاہی پلاٹس پر قبضے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ نے بتایا کہ مذکورہ پلاٹس ماسٹر پلان میں رفاہی پلاٹس ہیں جنہیں کے ڈی اے نے رہائشی پلاٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ رہائشی پلاٹس کی سیریز میں نئے نمبر کہاں سے آ گئے؟ یہ چائنا کٹنگ کب ہوئی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ نے جواب دیا کہ چائنا کٹنگ شاید 2002ء کے بعد شروع ہوئی۔
عدالت نے سوال کیا کہ پھر یہ انگلش کٹنگ ہے یا پاکستانی؟ یہ کونسی کٹنگ ہے؟
درخواست گزار کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ نے جواب دیا ممکن ہے گوٹھ آباد کی کوئی کٹنگ ہو۔
عدالت نے سلمان مجاہد بلوچ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ رکنِ اسمبلی رہے ہیں تو آپ کی معلومات تو زیادہ ہونی چاہئیں، چائنا کٹنگ 2002ء کے بعد شروع ہوئی، تب حکومت کس کی تھی؟
درخواست گزار کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ نے کہا کہ تب نعمت اللّٰہ خان میئر تھے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نالوں پر کٹنگ کر کے بینک بنا دیے گئے تھے، نالے میں دھماکا ہوا اور بینک تباہ ہو گیا، آپ رکنِ اسمبلی رہے ہیں آپ کو تو پتہ ہو گا۔
جس پر درخواست گزار کے وکیل سلمان مجاہد بلوچ نے کہا کہ تب شاید پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔
یہ سن کر عدالت نے کہا کہ آپ سچ نہیں بولنا چاہتے، آپ اپنا نام نہیں لینا چاہتے۔
عدالت نے کے ڈی اے کے وکیل کے پاس مکمل دستاویز نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور آئندہ سماعت پر ڈائریکٹر لینڈ کے ڈی اے اور دیگر افسران کو ذاتی حیثیت میں بلا لیا۔
عدالت نے درخواست کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔