کیا تاریخ اور جغرافیہ ہمارے ساتھ ہیں۔ انہونیاں ہورہی ہیں۔
اچانک ایسی خبر آتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
پاکستان کے ہم عمر ہونے کے ناطے اپنے آپ سے یہی پوچھنا ہوتا ہے کہ کیا ہم سب ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یا ہمارے مختلف اداروں کے قبلے الگ الگ ہیں۔ خبروں پر مشتعل یا مایوس ہونے کی بجائے ان کے نتیجے پر غور کرنا چاہئے کہ اس بل۔ فیصلے یا قرار دادوں کے اثرات ہمارے بیٹے بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں پر کیا ہوں گے یہ جو فکر ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔ یہ بہت ہی بے مقصد بات ہے۔ دنیا کبھی مشکل میں پھنسے افراد یا قوموں کی مدد نہیں کرتی۔ فلسطین اور بالخصوص غزہ میں بچے، عورتیں، مرد روزانہ قتل ہورہے ہیں، کوئی اسرائیل کا ہاتھ روک رہا ہے۔؟
اپنے نئے شعری تجربے ’رقصِ یعنی‘ کی 15نومبر کو ہونے والی تقریب کے سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی جانا ہوا۔ خیال تھا کہ 38 روزہ بین الاقوامی ثقافت ادب، مصوری، تھیٹر کے فیسٹیول نے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کو تھکا دیا ہو گا۔ آرٹس کونسل اب ویران ہوگی۔ لیکن یہ تو ایک دریا ہے۔ بہتا رہتا ہے۔ اب عالمی اُردو کانفرنس(5سے 8دسمبر) کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلی بار 40 سے زیادہ ملکوں کے تمدن، ادب، موسیقی، رقص، ڈراموں سے 38 دوپہریں، شامیں سجی ہیں۔ بہت مشکل ہوتا ہے، اتنا اہتمام۔ اتنے انتظامات۔ پھر معیار بھی برقرار رکھنا۔ احمد شاہ صاحب کی آنکھ کی سرجری بھی ہوئی ہے۔ سیکرٹری جنرل اعجاز فاروقی بھی موجود تھے۔ اور شکیل خان بھی۔ جنہیں عظیم اُردو شعراء کے اشعار، بہترین نثر نگاروں کے جملے ازبر ہیں۔ کراچی کے نوجوان، بزرگ، مائیں بہنیں، سہاگنیں، اپنے تمام سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل اور رہبری کے قحط کے باوجود اپنی روایات اقدار کے تحفظ حرف کی حرمت کیلئے دن رات مستعد رہتے ہیں ان 38دنوں میں بھی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ تہذیبیں اسی طرح ایک دوسرے میں گندھتی ہیں، ذہانتیں اسی طرح منتقل ہوتی ہیں، سندھ والے جس معاشرتی کرب اور دانستہ نظر اندازی کے تسلسل کا شکار ہیں۔ ایسے ثقافتی تہواروں سے ان کی صلاحیت و اہلیت مزید صیقل ہوتی ہے اور وہ اپنے شہری، ملکی معاملات کو عالمی تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم شرکت کرنے والے نوجوانوں کے تاثرات معلوم کریں تو ہمیں اپنے مستقبل سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ میں نے آرٹس کونسل کی جوش ملیح آبادی لائبریری کیلئے اپنی خود نوشت ’شام بخیر‘۔ ناول ’انجام بخیر‘۔ ’شب بخیر‘ ۔ انٹرویوز کا مجموعہ ’روبرو‘۔ نیا شعری تجربہ ’رقصِ یعنی‘۔ بچوں کیلئے نظمیں ’ایاں ایاں یو یو‘۔ بھی احمد شاہ صاحب کو پیش کیں۔ فاطمہ حسن نے جوش ملیح آبادی لائبریری کو اپنی کتاب دوستی اور سلیقے سے بہت بارونق اور نوجوانوں کیلئے پُر کشش بنا دیا ہے۔
کلیدی عہدوں پر اگر باذوق، مخلص اور باشعور افراد متمکن ہوں تو متعلقہ ادارے ایک معاشرے کو بہت آگے لے جانے کا سرچشمہ بنتے ہیں۔ مغرب کی تیز ترین مواصلاتی ایجادوں سے دنیا ایک دوسرے کے بہت قریب آچکی ہے۔ آج کا نوجوان بہت ذہین، تخلیقی صلاحیتوں سے سرشار، اپنے اپنے سماج کو تیزی سے آگے لے جارہا ہے۔ جہاں ریاستی ادارے اس تیز رفتاری کااحساس رکھتے ہیں اور نوجوانوں کے قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں۔ وہاں ملک مجموعی طور پر ترقی کرتے ہیں۔ جہاں ابھی جاگیردارانہ سماج ہے، سرداری نظام ہے، ریاستی اداروں پر شخصیات کا غلبہ ہے، وہاں ریاست پیچھے رہ جاتی ہے، افراد زمانے کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ مافیا کوششیں کرتے ہیں کہ قافلوں اور منزلوں کے درمیان ناکے لگائے جائیں لیکن سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، وائی فائی ناکے توڑ رہا ہے۔پاکستان میں مایوسی پھیلانے والے بھی بہت ہیں۔ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے والے بھی۔ قومی سیاسی جماعتیں جمہوریت کی مستحکم بنیاد ہوتی ہیں۔ یہ ایسی نہریں ہیں کہ جمہوری اداروں کو مسلسل سیراب کرتی ہیں۔ انہیں حکومت میں آنے کے بعد اکثر ایسے قوانین بھی منظور کرنا پڑے ہیں جو ان کے منشور میں نہیں ہوتے۔ غلام محمد جیسے گورنر جنرل بھی آتے رہے ہیں۔ جسٹس منیر جیسے منصف بھی۔ امریکہ جہاں اب نیا صدر منتخب ہو گیا ہے۔ جو اب سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں بھی یہ مکمل جمہوری نظام ابتدائی برسوں میں ہی نہیں رائج ہو گیا تھا۔ بہت خانہ جنگی ہوئی۔ سیاہ فاموں کو غلامی کے کئی ادوار کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ میں بھی خانہ جنگیاں ہوئیں۔ تب پارلیمنٹ کو بالادستی نصیب ہوئی۔
بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد جموں کشمیر بھی ہزاروں سال کی روایات اور تاریخ رکھتے ہیں۔ آزادی کی طویل مسافتیں طے کی ہیں۔ بہت سی آزادیاں مل گئی ہیں۔ بہت سی ابھی حاصل کرنا ہیں۔ موجودہ پاکستان اگرچہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے۔ ادھورا پاکستان ہے۔ تحریک پاکستان مشرقی بنگال میں زیادہ شدو مد سے چلی تھی۔ مسلم لیگ کا قیام بھی وہیں عمل میں آیا تھا۔ موجودہ پاکستان جو در اصل مغربی پاکستان ہے۔ جہاں مختلف زبانیں بولنے والے سماج آباد ہیں۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگیں لڑی ہیں۔ پھر 1947میں پاکستان میں شامل ہونے کے بعد بھی انسانی حقوق، صوبائی خود مختاری اور شہری آزادیوں، ایک ایک فرد کی انفرادیت کیلئے مسلسل قربانیاں دی ہیں۔ ملک میں اب بے شُمار تحقیقی ادارے، یونیورسٹیاں اور رفاہی تنظیمیں ہیں۔ ریاست ابھی تک اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہی۔ ہم اپنے سسٹم نہیں بنا سکے۔ بے شُمار گروہ ہیں جو قانون کا یکساں نفاذ نہیں ہونے دیتے۔ پھر ہماری بد قسمتی کہ یہی با اثر گروپ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا اختیار حاصل کر لیتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ثقافت، تمدن، ادب، فکر صدیوں قدیم ہے۔ صوفیائے کرام نے ان روایات کو مستحکم کیا ہے۔ شاعروں، ادیبوں، علمائے کرام نے اپنے سوز و ساز، پیج و تاب سے مسائل کی شناخت کی ہے۔ تاریخ یہاں اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے۔ مگر اکثر خاموش تماشائی بھی بنی رہتی ہے۔ ان دنوں ہم بہت سے عارضوں کا شکار ہیں لیکن قوم کی حیثیت سے ہم آزمائشوں کامقابلہ کر رہے ہیں۔ ہماری اکثریت بہت باشعور ہے، حساس ہے۔ واہگہ سے گوادر تک نئی سوچوں کی لہر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اجتماعی شعور کے تناظر میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ دنیا بھر کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ ہماری ریاست، ادارے، ان عالمی تجربات اور اپنے پاکستانی بھائیوں کے فکری رجحانات کے سیاق میں اپنی ترجیحات مرتب کریں تو تاریخ کا پہیہ ہم آگے دھکیل سکیں گے۔ پاکستانی اکثریت نوجوان ہے، ان کی سوچ فیس بک، یو ٹیوب، ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ریلز میں نقش ہورہی ہے۔ صبر اور تحمل سے تحقیق کریں۔ پھر اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ آئندہ دو تین سال کا نہیں بیس پچیس برس کا روڈ میپ بنائیں۔ اس کیلئے آئینی ترامیم کریں، قوانین بنائیں، تب تاریخ جغرافیہ کے اور ہمارے ساتھ ہو گی۔