• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح اس اعتبار سے تو تاریخی ہے ہی کہ انہوں نے متعدد الزامات، قاتلانہ حملے اور کئی دیگر مشکلات کے باوجود اپنی حریف اور امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے 224الیکٹورل ووٹوں کے مقابلے میں 292الیکٹوریل ووٹوں کیساتھ 7کروڑ 19لاکھ سے زائد پاپولر ووٹ حاصل کئے اور سینٹ اور ایوان نمائندگان میں بھی میدان مار لیا۔ مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ امریکی تاریخ میں دو الگ الگ مدتوں کے لئے دوبارہ منتخب ہونے والے دوسرے صدر بن گئے ہیں اس سے پہلے ری پبلکن امیدوار جیمز کویہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ٹرمپ نے تین بار صدارتی الیکشن لڑا اور دونوں کامیابیوں میں ان کی مدمقابل خواتین امیدوار (ہلیری کلنٹن 2016ء) اور کملا ہیرس 2024ء) رہیں۔ جبکہ تاریخ میں پہلی بار خلا سے بھی الیکٹرک بیلٹ کےذریعے ووٹ کاسٹ ہوا۔ خلائی اسٹیشن میں بیٹھے خلا بازوں کا موقف یہ تھا کہ ووٹ دینے سے فرق پڑتا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 40سالہ جے ڈی وینس اپنے حریف ٹم ویلز کو ہرا کر تیسرے کم عمر نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک طاقتور صدر کے طور پر ابھریں گے تاہم امریکہ کا انتظامی سیٹ اپ اس نوع کا ہے کہ صدر جتنا بھی طاقتور ہو، اسے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پینٹاگون اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو انتظامی اختیارات، سینٹ اور کانگریس میں اکثریت کے علاوہ کئی دیگر عوامل نے بھی ایک بہتر صورت حال فراہم کی ہے۔ اس منظر نامے میں ڈونلڈ ٹرمپ نےاپنے انتخابی ہیڈ کوارٹر (فلوریڈا) اور ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنے حامیوں سے خطاب میں جو باتیں کہیں ان سے ظاہر ہے کہ وہ ماضی کی طرح’’ سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ جاری جنگیں ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ جنگیں ختم کی ہیں اور اب بھی دنیا میں جاری تنازعات ختم کریں گے۔ عالمی امن کے حوالے سے یہ بیان دل خوش کن ہے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ جب یوکرین میں جنگ بند کرنے سمیت کئی اقدامات کئے جائیں گے تو امریکی اتحادیوں ،خاص طور پر یورپ کا کیا ردّعمل ہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں پچھلی دفعہ انہوں نے ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کرایا تھا جس سے کشیدگی کے امکانات کم ہوتے محسوس ہوئے مگر اب وہاں کشیدگی سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بہیمیت عروج پر ہے۔ جنگ کے سائے فلسطین، لبنان، یمن سے ایران کی طرف بڑھتے محسوس ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا نئے صدرِ امریکہ غزہ میں بہیمیت رکوا دیں گے اور مشرق وسطیٰ پر چھائے جنگ کے خطرات دور کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ امریکہ اور چین کی کشیدگی میں اضافے کی ایک وجہ بھاری برآمدی ٹیکس عائد کرنے کی بات بھی تھی۔ جبکہ خطے کی مخصوص صورت حال میں چین سے امریکہ کی کشیدگی اوربھارت سے دوستی نمایاں ہے۔ افغانستان میں ایک نئی صورتحال ہے جس سے نبردآزما ہونا پاکستان کیلئے چیلنج ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا اس باب میں امریکہ پاکستان کی مدد کریگا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے نریندر مودی اور عمران خان سے اچھے تعلقات ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی معاملات ذاتی امور سے بالاتر ہوتے ہیں لیکن بالفرض امریکہ کی طرف سے اس باب میں مداخلت کے امکانات ہوں تو کیا پاکستان کیلئے اپنی برآمدات سب سے زیادہ جذب کرنے والے ملک کی ناراضی کے معاشی اثرات برداشت کرنا ممکن ہوگا؟ یہ اور اس نوعیت کے دوسرے سوالات غور طلب ہیں۔دیوار پر لکھی تحریر یہ ہےکہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی صورتحال بدلے گی۔ پاکستان پر اس کا اثر بہت کم ہوگا مگر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوگا۔

تازہ ترین