• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی صدر منتخب ہوگئے۔ آئے روز اپنے باکمال اور انوکھے سیاسی و صدارتی وجود کا احساس عالمی سطح پر دلانے والے ٹرمپ نے دوبارہ صدر منتخب ہو کر امریکہ کے اس انتخاب کو حقیقتاً تاریخ ساز بنا دیا ہے۔ امریکی الیکشن۔ 1980 ءکے بعد یہ وہ الیکشن ہے جس کا دلچسپ نتیجہ امریکی داخلی صورتحال سے کہیں زیادہ عالمی سیاست و معیشت کو متاثر کرئیگا۔ واضح رہے اس انتخاب (1980ء) میں ریگن صدر منتخب ہوئے تھے جن کے انتخابی ایجنڈے میں دنیا میں امریکی سیاسی بالادستی کا گراف گویا زمیں بوس ہو گیا تھا۔ ایران انقلاب کے بعد امریکی دائرہ اثر سے نکل کر ’’مرگ بر امریکہ‘‘ اور ’’شیطان بزرگ امریکہ‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ افغانستان پر روسی جارحیت کے بعد کٹھ پتلی حکومت کی آڑ میں عملاً سوویت یونین کا قبضہ ہوگیا تھا۔ پاکستان جیسا امریکی روایتی حلیف جو سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں کا رکن ہوتے ہوئے بھی نفاذِ مارشل لا کے بعد پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات، ناگزیر اور سفارتی تعلقات تک محدود ہوگئے تھے، اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے پر مکرمہ ایک یمنی گروہ کے حملے کا الزام امریکہ پر لگا کر عوامی احتجاجی دھارے میں سفارتی عملے کے دو افراد ہلاک ہونے پر جمی کارٹر انتظامیہ اور عوام سراپا احتجاج تھے۔

اسی پس منظر میں نومنتخب صدر ریگن نے داخلی معاملات و مسائل سے بھی زیادہ انتخابی ایجنڈا، خارجی امور کو بنایا، اس وقت بھی امریکہ میں یہ احساس عام تھا کہ ویت نام سے ناکام امریکہ کے انخلا کے بعد جغرافیائی سرحدوں سے باہر امریکی دھاک و دبدبے میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ ریگن کٹر ریپبلکن اور روس مخالف تھے۔ البتہ بطور اداکار انہوں نے دنیا میں فروغِ کمیونزم کیلئے چندہ مہم چلائی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی روایتی اپروچ کے برعکس خارجی امور سے متعلق ایجنڈے، جنگوں سے پرہیز اور جنگی ماحول کی حوصلہ شکنی کو انتخابی ایجنڈے میں نمایاں کیا۔ امریکی رائے عامہ نے بائیڈن کی غزہ میں جنگ بندی کرانے میں ناکامی کو امریکی انتظامیہ کی کمزوری اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی قتل عام پر بڑی بڑی احتجاجی ریلیوں کے باوجود مہلک بھاری مقدار اسلحے کی سپلائی جاری رکھنے اور ٹرمپ کے عالمی امن ایجنڈے پر ٹرمپ کو سابقہ دور کے سات خون معاف کرکے انہیں ووٹ دیئے۔ یوکرین جنگ کی کھل کر مخالفت یہاں تک کی کہ نیٹو کے وجود کو امریکہ پر بوجھ اور غیر ضروری قرار دیا۔لہٰذا ٹرمپ کی دوسری مدت میں یہ تو ٹھہر گیا ہے کہ یوکرین کی جنگ جو کملا ہیرس کے صدر بننے پر برقرار رہتی، ختم ہو جائے گی۔ ٹرمپ انتخابی مہم سے قبل تو ہائی فری کوئنسی پر اور دوران بھی فوری جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے ٹو اسٹیٹ سیلوشن کی بات کرتے رہے، سو گمان غالب ہے وہ اس برننگ ایشو کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ایڈریس کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائیں گے۔ غالب امکان ہے کہ سابقہ دور میں اپنی چین مخالف ’’ٹریڈ وار‘‘ کو دبا دیں گے۔ واضح رہے اس سے آبنائے ملائیکا اور پورے مشرقی ایشیا میں بڑی بحری جنگ کے بادل چھا گئے تھے، اور انکے حلیف متنازع تائیوان کا موجود سیاسی تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا۔ اب ٹرمپ اس طرف نہیں آئیں گے، انہوں نے اس خطے میں بڑے امریکی تجارتی و اقتصادی مفادات کے حوالے سے جو ترجیحی پالیسی جنگی مزاج کی بنائی تھی، چین کے اس سے کہیں زیادہ جارحانہ رسپانس اور عملی اقدامات نے ٹرمپ میں یہ اعتراف انکے اقتدار ختم ہونے تک بلند درجے پر پیدا کر دیا تھا کہ چین سے اتنی بڑی اور عسکری مزاج کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جا سکتی کہ:چین کی بحر ہند تک پہنچ کیلئے سرگرم بحری تجارتی ٹریفک (میری ٹائم) کی ناکہ بندی کا خطرہ مول لے کر تائیوان اور خطے کے حلیفوں کو جنگ زدہ کردیا جائے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوگیا تھا کہ بھارت ہمارے (امریکہ) کیلئے جتنا بھی اہم ہے لیکن یہ چین سے کسی بھی جنگی صورت میں کوئی اچھا پارٹنر نہیں ۔ تبھی تو گلوان ویلی میں چین، بھارت جھڑپوں کے آغاز اور دوران ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ دونوں چپ سادھے رہے،بھارت ایک بار پھر روس کی طرف مائل ہو کر آئرن ڈوم کا خریدار بنا۔ اور اسکی امریکہ سے نئی نئی آزمائش(بحوالہ کوائیڈ) میں آئی ، ڈیفنس پارٹنر شپ ڈگمگا گئی اور ہر دو امریکہ اور بھار ت کیلئے مشکوک ہوگئی۔ انڈیا میں برکس کانفرنس میں ڈی پنگ ، مودی ملاقات کے بعد یہ تنقید مودی کے خلاف زور وشور سے جاری ہے کہ ہم (بھارت) روس و امریکہ کے درمیان اپنی ڈگمگاتی پالیسی کے باعث اب علاقائی طاقت بھی نہیں رہے۔ یہ تنقید اپوزیشن کی جانب سے نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بھاجپا) کے عوامی گروپ کی جانب سے شدت سے ہو رہی ہے، یہاں تک کے مودی پر لداخ کا چین کے قبضے میں جانے والے متنازعے علاقے سے دستبردار ہونے کا الزام تک رہا ہے۔ اس ضمن میں ہونے والے بھارت چائنہ معاہدے کو چھپانے کا مدعا میڈیا پر زیر بحث ہے۔ پچھلے دور میں ہی ہر دم جنگ کیلئے تیار شمالی کورین لیڈر سے ملاقات کرکے ٹرمپ نے خود کو عالمی امن کا انوکھا چیمپئن تو ثابت کیا تھا وہ اس بار بھی ایسے چونکا دینے والے اقدامات کریں۔تجسس یہ ہے کہ وہ ایران سے امریکی مخاصمت ختم کرنے میں اسرائیل کو اہمیت دیتے ہیں یا اپنے ایجنڈے کو، یہ ان کا بڑا تلپٹ ہوگا۔

بلاشبہ امریکی الیکشن۔ 24میں دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں کی دلچسپی و تجسس بلند درجے پر تھا، لیکن پاکستان میں بلند ترین درجے پر، کیونکہ ہماری مستقبل قریب کی داخلی سیاست حقیقتاً اور عملاً دوسری ٹرمپ انتظامیہ سے جڑ گئی ہے۔ یہ تو درست ہے کہ امریکی انتظامیہ میں اس کی اہمیت بہت ثانوی اور عمومی ٹوٹل گورننس میں اوجھل ہی ہوگی۔ تحریک انصاف کا اپنا مزاج بھی نہیں کہ وہ بطور پارٹی پالیسی عمران کی رہائی کا سارا انحصار اب اسی پر کرے۔

یہ تو ماننا پڑے گا 8فروری کے انتخابی نتائج کو تلپٹ کرکے جس طرح ٹرمپ کے دوست عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بننے سے روکا گیا، اس کا پاکستانی پیپلز ایٹ لارج میں یہ یقین پختہ ہے کہ یہ سب بائیڈن انتظامیہ کا کیا دھرا ہے۔ اس کا اعلان عام اور الزام عام بھی خان نے اپنے دوست (واضح رہے یہ ٹرمپ خود قرار دے چکے ہیں) ٹرمپ کے ہی انداز میں لگانے کی جسارت کی۔

عمران خان کی رہائی میں ٹرمپ کے امکانی کردار کی امید اور اس پر پروپیگنڈہ انداز میں ن لیگی اور پیپلز پارٹی کی پروپیگنڈہ سٹائل کمیونیکیشن تو لغو ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ ٹرمپ کرسی صدارت سنبھالتے ہی اس طرف نہیں آ جائیں گے لیکن گمان غالب ہے کہ امریکی پاکستانی بہت منظم انداز، بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ صدر ٹرمپ کو اس طرف ممکنہ حد تک جلد لے آئیں گے۔ وہ اس حوالے سے اپنی گہری دلچسپی اور مکمل اہلیت ثابت کر چکے ہیں۔

تازہ ترین